الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ

حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی المعروف غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ

تعارف:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام مبارک ’’عبدالقادر ‘‘ہے، والد صاحب کا نام حضرت ابوصالح موسیٰ جنگی دوستؒ ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت بغداد شریف کے قریب قصبہ جیلان میں ہوئی، ایک قول پر آپ کی ولادت 470ھ میں اور ایک قول پر471ھ میں ہوئی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ابومحمداور القاب محی الدین، غوث اعظم ،پیران پیر ،محبوب سبحانی وغیرہ ہیں۔(بہجتہ الاسرار صفحہ171)

آپ کا نسب مبارک:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نجیب الطرفین سید ہیں، آپ کا شجرہ نسب والد صاحبؒ کی طرف سے گیارہویں پشت میں حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور والدہ صاحبہؒ کی طرف سے چودہویں پشت میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ171)
اعلیٰ حضرت رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
؂ نبوی مینھ ، علوی فصل، بتولی گلشن۔حسنی پھول ،حسینی ہے مہکنا تیرا

مبارک خاندان:

حضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پورا خاندان اولیاء کا خاندان تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد حضرت ابو صالح جنگی دوست ؒ ، والدہ حضرت فاطمہؒ ، نانا جان حضرت سید عبداللہ صومعیؒ ، پھوپھی حضرت سیدہ امِ عائشہؒ ، آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد وغیرہ سب کے سب متقی ،پرہیز گار اور باکرامت اولیاء تھے۔


آپ کے والد ،نانا جان اور والدہ:

آپؒ ؒ کے والد حضرت سید ابوصالح موسیٰ رحمتہ اللہ علیہ جوانی کے ایام میں ریاضات اور مجاہدات کے دوران ایک مرتبہ شہرکے باہردریا کے کنارے جارہے تھے کئی روز سے کچھ کھایا پیا نہیں تھا، اچانک کنارے کے قریب دریا میں تیرتے ہوئے ایک سیب پر نظر پڑی، اٹھاکر کھالیا، کھانے کے بعد خیال پیدا ہوانجانے کس کا سیب تھا جو میں نے بغیر اجازت کھالیا، اسی پریشانی کے عالم میں سیب کے مالک کی تلاش میں دریاکے کنارے چل پڑے، کچھ دور پہنچے تو دریا کے کناے ایک باغ نظر آیا۔ جس کے درختوں سے پکے ہوئے سیب دریا کے پانی پر لٹکے ہوئے تھے ، آپ سمجھ گئے کہ وہ سیب ان ہی درختوں کا تھا، دریافت کرنے پر معلوم ہواکہ یہ باغ حضرت سید عبداللہ صومعیؒ کا ہے۔ لہذا ان کی خدمت میں حاضر ہوکر بلااجازت سیب کھالینے کی معافی چاہی، حضرت عبداللہ صومعی چونکہ خود خاصانِ خدا میں سے تھے، سجھ گئے کہ یہ انتہائی صالح نوجوان ہے، چنانچہ فرمایا اتنا عرصہ باغ کی رکھوالی کروپھر معافی پر غور کیا جائے گا،حضرت ابوصالح رحمتہ اللہ علیہ نے مقررہ مدت تک بڑی دیانت داری کے ساتھ یہ خدمت سرانجام دی اور پھر معافی کے طلبگار ہوئے، حضرت عبداللہ صومعی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ابھی ایک شرط باقی ہے، وہ یہ کہ میری ایک بیٹی ہے کہ آنکھوں سے اندھی ہے، کانوں سے بہری ہے، منہ سے گونگی ہے، پاؤں سے لنگڑی ہے ، اگر تم اس سے نکاح کرلو تو معافی دے دی جائیگی۔ حضرت ابو صالح ؒ نے منظور کرلیا، نکاح کے بعد جب حجرہ عروسی میں قدم رکھا ، اپنی بیوی کو تمام ظاہری عیوب سے مبرہ ہونے کے ساتھ ساتھ حسن ظاہری سے بھی متصف پایا تو خیال گزرا کہ یہ کوئی اور لڑکی ہے ،گھبرا کر کمرے سے باہر نکل آئے، اسی وقت حضرت عبداللہ صومعیؒ کے پاس پہنچے اور اپنی پریشانی بیان کی تو حضرت عبداللہ صومعی ؒ نے فرمایا، اے شہزادے! یہی تمہاری بیوی ہے ،میں نے جو اس کی صفات بیان کی تھیں وہ سب صحیح ہیں، یہ اندھی ہے اس لیے کہ کسی غیر محرم پر اس کی نظر نہیں پڑی، یہ بہری ہے کہ کبھی خلاف شرع بات اس نے نہیں سنی، یہ لنگڑی اس لئے ہے کہ اس نے کبھی خلاف شرع کام نہیں کیا، یہ لنگڑی اس لیے ہے کہ خلاف شرع کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا اور یہ گونگی اس لیے ہے کہ اس نے کبھی خلاف شرع بات نہیں کی۔

یہ تھے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد اور نانا جان اور ایسی صفات کے مالک تھے۔حضرت غوث پاکؒ کی والدہ حضرت اُم الخیر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ایک مرتبہ جیلان میں بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوگئی، لوگوں نے طلبِ بارش کے لیے نمازِ استسقاء پڑھی مگر بارش نہ ہوئی، لوگ حضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پھوپھی جان حضرت ام عائشہ رحمتہ اللہ علیہا کے گھر مبارک پر حاضر ہوئے اور آپ سے بارش کی دعا کے لیے درخواست کی، آپ اپنے گھر کے صحن میں تشریف لائیں اور زمین پر جھاڑو دے کر اس طرح دعا مانگی: اے میرے مالک! میں نے تو جھاڑو دے دیا اب تو چھڑکاؤ فرمادے، کچھ ہی دیر میں اس قدر بارش ہوئی جیسے مشک کا منہ کھول دیا گیا ہو، لوگ اس حال میں اپنے اپنے گھروں میں واپس آئے کہ سب کے سب بارش سے بھیگے ہوئے تھے اور جیلان شہر خوشحال ہوگیا۔

مبارک بچپن:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت رمضان المبارک میں ہوئی، آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ رمضان میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتے تھے، ایک بار رمضان کے چاند کی روئیت میں اختلاف پڑ گیا تو لوگ میرے پاس آئے اور دریافت کیا تو میں نے اُنہیں بتایا کہ میرے بیٹے نے آج دودھ نہیں پیا، جس سے وہ سمجھ گئے کہ چاند ہوگیا، اس واقعہ سے میرے بیٹے کی فضیلت وشرافت کا شہرہ ہوگیا، میرے بیٹے نے کبھی بھی رمضان میں دن کے وقت دودھ نہیں پیا۔(بہجتہ الاسرار صفحہ172،زبدۃ الآثار صفحہ44) 
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں بچپن میں کبھی بچوں کے ساتھ کھیلنے کاارادہ کرتا تو کسی کہنے والے کی آواز سنتا: الی این یا مبارک، یعنی اے برکت والے!کہاں جاتے ہیں؟، میں سہم کر اپنی والدہ کی گود میں چلا جاتا۔
محبوب سبحانی حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے پوچھا: آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا؟ آپؒ نے ارشادفرمایا کہ میری عمردس برس کی تھی میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کے لیے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کیلئے جگہ کشادہ کردو۔(بہجتہ الاسرار صفحہ48)
شیخ محمدبن قائد الاوانی رحمتہ اللہ عالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم سے فرمایا: حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: یا عبدالقادر مالھذا خلقت یعنی اے عبدالقادر ! تم کو اس قسم کے کاموں کیلئے تو پیدا نہیں کیا گیا۔ میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں، اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا : آپ مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔
والدہ ماجدہ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہا نے مجھ سے اس کا سب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا تو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ80دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے40دینار لے لیے اور40دینار اپنے بھائی سید ابواحمد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے چھوڑ دئیے، والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دئیے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرمادی ۔�آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے ہرحال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کیلئے تشریف لائیں اور فرمایا : اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔
اسی سفر میں ڈاکوؤں کی توبہ والا مشہور ومعروف واقعہ پیش آیا، آپ کے سچ بتانے(کہ میرے پاس40دینار ہیں) سے متاثر ہوکر ڈاکوؤں کے سردار اور دیگر ڈاکوؤں نے آپ کے مبارک ہاتھ پر توبہ کی۔(بہجتہ الاسرار صفحہ167،168)

آپؒ کی زو جہ محترمہ:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے شیخ عبدالجبار رحمتہ اللہ علیہ اپنی والدہ محترمہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ جب بھی کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتیں تو وہاں چراغ کی مثل روشنی ہوجاتی تھی ، ایک مرتبہ میرے والد صاحب حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی وہاں تشریف لے آئے، جیسے ہی اس روشنی پر آپ کی نظر پڑی تو وہ روشنی فوراً ہی غائب ہوگئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ شیطان تھا جو تمہاری خدمت کیاکرتا تھا، اسی لیے میں نے اُسے ختم کردیا ، اب میں اس روشنی کو رحمانی نور میں تبدیل کیے دیتا ہوں، اس کے بعد والدہ صاحبہؒ جب بھی کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتیں تو وہاں چاند کی مثل نور اور روشنی ہوجاتی ۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ196)

آپؒ کی اولادمبارک:

آپ کے شہزادوں میں سے دس کا تذکرہ بہجتہ الاسرار اور زبدۃ الآثار میں بڑی تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے، آپ کے یہ شہزادے علم میں پختہ ،فقہ میں ماہر ،متقی پرہیز گار اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء میں سے تھے، شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ زبدۃ الآثار میں فرماتے ہیں:’’صاحبِ بہجۃ الاسرار نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد پاک کے علمی کمالات اور دینی خدمات پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، مولف نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ آپ کی اولاد پاک سے لوگوں کو کس قدر علمی فیض حاصل ہوا اور کس قدر علماء کباروفضلاءِ زمانہ نے ان سے تلمذ کیا، اس قسم کے کمالات علمیہ اور فیضانِ روحانیہ کسی بزرگ کی اولاد سے دیکھنے میں نہیں آئے۔ ‘‘(زبدۃ الآثار صفحہ51)

علم مبارک:

اللہ تعالیٰ نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بے شمار ظاہری اور باطنی علوم سے نوازا تھا۔

علمِ تفسیر:

بہجتہ الاسرار کے مصنف فرماتے ہیں کہ مجھے حافظ ابوالعباس احمد نے بتایا کہ میں اور تمہارا والد ایک دن حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے، ایک قاری نے قرآن مجید کی چند آیات تلاوت کیں اور حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک معنی بیان فرمائے، میں نے آپ کے والد سے دریافت کیا کہ کیا آپ اس معنی کو جانتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اور معنی بیان کیے، میں نے پھر پوچھا تو آپ کے والد نے بتایا کہ ہاں یہ بھی جانتا ہوں، پھر اسی طرح حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے گیارہ معانی بیان کیے، آپ کے والد سب کے بارے میں کہتے رہے کہ میں جانتا ہوں، پھر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید معانی بیان کیے، یہاں تک کہ چالیس معنی بیان کیے، گیارہویں معنی کے بعد سے میں آپ کے والد کے پوچھتا تو وہ نفی میں جواب دیتے کہ میں ان معانی کو نہیں جانتا۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر تفسیری معنی کی نسبت اس کے قائل کی طرف ملاتے رہے کہ یہ فلاں کا قول ہے، آپ کے والد حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علمی تبحر پر حیرت زدہ ہوئے۔ آخر میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : اب ہم قال سے حال کی طرف آتے ہیں لاالہٰ الا اللہ ، یہ کہنا تھا کہ سارے اہل مجلس مضطرب ہوگئے اور چند لمحوں میں آپ کے والد نے اپنے کپڑے پارہ پارہ کردئیے۔ 
(بہجتہ الاسرار صفحہ226)

علم فتوی:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں دنیائے اسلام کے ہرشہر سے استفتاء (سوالات) آتے تھے، جن پر آپ کی آخری رائے طلب کی جاتی تھی، (جب سے آپ نے فتوی دینا شروع کیا) ایک رات بھی ایسی نہ گزری ہوگی کہ جس رات آپ کے پاس دینی سوالات نہ آئے ہوں اور آپ نے ان پر غور نہ کیا ہو اور پھر ان پر اپنی رائے نہ ثبت کی ہو۔زبدۃالآثار صفحہ53)

آپ کی فقاھت:

ایک مرتبہ بلادِ عجم سے فتوی طلب کیا گیا، ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی عبادت کرے گا کہ اس وقت کوئی دوسرا شخص وہ عبادت نہ کررہا ہو، اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں، تو اس صورت میں وہ شخص کیا کرے؟ اس سوال سے علماء وفقہاءِ حیران رہ گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے، جب یہی سوال حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو آپ نے فوراً اس سوال کا جواب ارشاد فرمایا کہ وہ شخص مکۃ المکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ اپنے لیے خالی کرائے اور تنہا طواف کرکے اپنی قسم کو پورا کرلے، اس کی بیوی کو طلاقیں نہیں ہوں گی ۔ اس جواب سے علماء حیران رہ گئے۔ 
مفتیِ شرع بھی ہے قاضی ملت بھی ہے
علمِ اسرارسے ماہر بھی ہے عبدالقادرؒ 

تیرہ علوم :

بہجتہ الاسرار میں ہے کہ حضورغوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیرہ علوم میں کلام فرماتے تھے، حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسے میں درسِ تفسیر، درسِ حدیث ، درسِ علمِ الکلام اور درسِ مناظرہ ہوا کرتا۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ دن کے دونوں حصوں میں تفسیر ، علومِ حدیث ، علم الکلام،علمِ مناظرہ، علمِ اصول، علمِ نحو پڑھاتے اور دوپہر کے بعد قراء تیں پڑھاتے تھے۔

علم لدنی:

ایک دفعہ شیخ بزار رحمتہ اللہ علیہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ اس وقت دودھ نوش فرمارہے تھے۔ تھوڑاساآرام کیا اور چپ رہے ، پھرفرمانے لگے: اللہ تعالیٰ نے علمِ لدنی کے ستردروازے میرے لیے کھول دئیے ہیں اور ہردروازہ زمین و آسمان کی پہنائیوں سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ پھر آپ نے معارف وخواص پر گفتگو شروع کی جس سے اہلِ مجلس مدہوش ہوگئے۔

علمِ حقیقت:

سیدنا احمد رفاعی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: شیخ عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر ان کے دائیں ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر ان کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی لیں، ہمارے اس وقت میں سید عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ثانی نہیں۔(بہجتہ الاسرار صفحہ225،226،444)

عبادت وریاضت:

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’اربعین سنۃ اصلی الصبح بوضو ء العشاء‘‘ میں چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز اداکرتا رہا۔
مزید فرماتے ہیں : پندرہ سال تک یہ حالت رہی کہ عشاء کی نماز پڑھتا، ایک پاؤں پر کھڑا ہوجاتا اور قرآن پڑھنا شروع کردیتا یہاں تک کہ سحری کے وقت قرآن پاک مکمل ہوجاتا۔
شیخ ابوعبد اللہ محمدبن ابوالفتح ہروی رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی، قطب ربانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چالیس سال تک خدمت کی۔ اس مدت میں آپ عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ (یعنی ساری رات عبادت میں گزارتے ) اور آپ کا معمول تھا کہ جب بے وضو ہوتے تھے تو اسی وقت وضو فرماکر دورکعت نمازِ نفل پڑھ لیتے تھے۔ آپ عشاء پڑھ کر خلوت میں تشریف لے جاتے اور طلوع فجرتک عبادت میں مصروف رہتے، اس دوران کوئی آپ سے ملاقات نہ کرسکتا، اس دوران بعض اوقات خلیفہٗ بغداد بھی ملنے آیا مگر آپ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ 

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ میں پچیس سال عراق کے جنگلوں میں ریاضت کرتا رہا، میں لوگوں کو پہچانتا تھا مگر لوگ مجھے نہیں پہچانتے تھے، میرے پاس رجال الغیب اور جنوں کی جماعتیں آتیں اور میں انہیں خداشناسی کا راستہ دکھایا کرتا، چالیس سال تک میں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نمازادا کی، پندرہ سال تک نمازِ عشاء کے بعد ایک پاؤں پر کھڑا ہوکر قرآن پاک ختم کرتا رہا، میرا ہاتھ دیوار میں گڑے ہوئے کیل کی طرح رہتا تاکہ مجھے نیند نہ آئے حتیٰ کہ سحری کے وقت تک سارا قرآن پاک ختم کرلیتا، کبھی کبھی تین دن سے چالیس دن تک صرف گری پڑی چیزوں پر گزارا کرتا، میں بسلسلہٗ ریاضت گیارہ سال تک برج عجمی پر قیام پذیر رہا، میری اقامت کی وجہ سے ہی اس برج کا نام برجِ عجمی پڑگیا ، بسااوقات یوں ہوتا کہ میں اپنے اللہ سے عہد کرلیتا کہ میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک مجھے کھلایا پلایا نہیں جائیگا۔ چنانچہ میں اسی حالت میں چالیس روز تک رہا، چالیس دن کے بعد ایک شخص آیا، میرے سامنے اس نے کھانا لگادیا اور خود چلا گیا۔ شدتِ بھوک کے عالم میں یہ کوئی بڑی بات نہ تھی کہ میں کھانے کی طرف ہاتھ بڑھاتا مگر مجھے اپنی قسم یاد آگئی اور میں نے کھانے سے ہاتھ روک لیا۔ بھوک کی بیتابی سے میرے پیٹ سے ایک آواز آئی جوالجوع الجوع (بھوک بھوک) پکاررہی تھی میں نے اس آواز کی بھی کچھ پروا نہ کی۔ پھر میرے پاس شیخ ابوسعید مخزومی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور میری اس آواز کو سنتے ہی فرمانے لگے:عبدالقادر !یہ کیسی آواز ہے؟ میں نے عرض کیا: یا حضرت! یہ میرے نفس کے قلق واضطراب کی شورش ہے لیکن میری روح میرے اللہ کے پاس پُرسکون ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: آؤ بابِ ازج کی طرف چلیں ۔ آپ نے وہاں پہنچ کر مجھے اپنی حالت پر چھوڑ دیا اور خود چلے گئے اس کے بعد حضرت خضر علیہ السلام میرے پاس آئے اور کہنے لگے : اٹھو اور ابوسعید المخزومی کی طرف چلیں، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کے سامنے کھانا رکھا تھا، میں نے پوچھا یا حضرت ! مجھے کھانا کون دے رہا ہے آپ نے بتایا یہ کھانا اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ آپ مجھے کھلاتے گئے حتیٰ کہ میں سیر ہوگیا پھر آپ نے مجھے اپنے ہاتھ خرقہ پہنایا۔ (بہجتہ الاسرار صفحہ118،119،164)

قسمیں دے دے کے کھلاتاہے پلاتا ہے تجھے
پیارا اللہ تیرا چاہنے والا تیرا 

تبلیغ وارشاد:

حضرت بزاز رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں میں نے حضور غوث اعظم رحمتہ اللہ علیہ سے سنا کہ آپ ؒ کرسی پر بیٹھے فرمارہے تھے کہ میں نے حضور سیدِ عالم، نورمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا بیٹا تم بیان کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا اے میرے نانا جان (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)! میں ایک عجمی مرد ہوں بغداد میں فصحاء کے سامنے بیان کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مجھے فرمایا بیٹا اپنا منہ کھولو۔ میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے میرے منہ میں سات دفعہ لعاب مبارک ڈالا اور مجھ سے فرمایا کہ ’’لوگوں کے سامنے بیان کیا کرو اور انہیں اپنے رب عزوجل کی طرف عمدہ حکمت اور نصیحت کے ساتھ بلاؤ۔
پھر میں نے نمازِ ظہر اداکی اور بیٹھ گیا میرے پاس بہت سے لوگ آئے اور مجھ پر چلائے اس کے بعد میں نے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی زیارت کی کہ میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اے بیٹے تم بیان کیوں نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا اے میرے والد !لوگ مجھ پر چلاتے ہیں پھر آپ نے فرمایا اے میرے فرزند !اپنا منہ کھولو۔
میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ دفعہ لعاب ڈالا میں نے عرض کیا کہ آپ نے سات دفعہ کیوں نہیں ڈالا؟ تو انہوں نے فرمایا رسول اللہ ﷺ کے ادب کی وجہ سے پھر وہ میری آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔
پھرکیا تھا دورونزدیک سے لوگ آپ کا وعظ سننے کیلئے حاضر ہونے لگے، بڑے بڑے اجتماعات ہونے لگے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس مبارک میں شرکاء کا اجتماع بہت زیادہ ہوتا تھا لیکن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز مبارک جیسی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی ویسی ہی دوروالوں کو سنائی دیتی تھی یعنی دور اور نزدیک والوں کے لیے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز مبارک یکساں تھی۔(بہجتہ الاسرار صفحہ58،181)
شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس شریف میں کل اولیاء علیہم الرحمتہ اور انبیاء کرام علیہم السلام جسمانی حیات اور ارواح کے ساتھ نیز جن اور ملائکہ تشریف فرما ہوتے تھے اور حبیب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بھی تربیت وتائید فرمانے کیلئے جلوہ افروز ہوتے تھے اور حضرت سیدنا خضر علیہ السلام تو اکثر اوقات مجلس شریف کے حاضرین میں شامل ہوتے تھے اور نہ صرف خود آتے بلکہ مشائخ زمانہ میں سے جس سے بھی آپ علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو ان کو بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں حاضر ہونے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے کہ ’’جس کو بھی فلاح وکامرانی کی خواہش ہو اس کو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس شریف کی ہمیشہ حاضری ضروری ہے۔ (اخبارالاخبار صفحہ 13)

ولی کیا مرسل آئیں خود حضور آئیں
وہ تیری وعظ کی محفل ہے یا غوثؒ 

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے ہاتھ پر پانچ سو سے زائد یہودیوں اور عیسائیوں نے اسلام قبول کیا اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکو ،چور ،فساق وفجار ،فسادی اور بدعتی لوگوں نے توبہ کی۔
حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شیخ بقابن بطو کے ساتھ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضہ اقدس کی زیارت کی ، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبر سے باہر تشریف لائے اور حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے سینے سے لگالیا اور انہیں خلعت پہنا کر ارشاد فرما یا اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں تمہارے علم شریعت ،علم حقیقت ،علم حال اور فعل حال میں محتاج ہوں۔ 

جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں میرے آقا تیرا

کرامات:

ابوالسعود الحریمی رحمتہ اللہ عالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ابوالمظفر حسن بن نجم تاجر نے شیخ حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا حضور والا! میرا ملک شام کی طرف سفر کرنے کا ارادہ ہے اور میرا قافلہ بھی تیار ہے سات سودینار کا مال تجارت ہمراہ لے جاؤں گا تو شیخ حمادرحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر تم اس سال سفر کروگے تو تم سفر میں ہی قتل کردئیے جاؤگے اور تمہارا مال واسباب لوٹ لیا جائیگا۔

وہ آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد سن کر مغموم حالت میں باہر نکلا تو حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات ہوگئی اس نے شیخ حماد رحمتہ اللہ عالیہ کا ارشاد سنایا تو آپ نے فرمایا اگر تم سفر کرنا چاہتے ہوتو جاؤ تم اپنے سفر سے صحیح وتندرست واپس آؤ گے میں اس کا ضامن ہوں۔ ’’آپ کی بشارت سن کر وہ تاجر سفر پر چلا گیا اور ملک شام میں جاکر ایک ہزار دینار کا اس نے اپنا مال فروخت کیا اس کے بعد وہ تاجر اپنے کسی کام کیلئے حلب چلا گیا وہاں ایک مقام پر اس نے اپنے ہزار دینار رکھ دئیے اور رکھ کر دیناروں کو بھول گیا اور حلب میں اپنی قیام گاہ پر آگیا نیند کا غلبہ تھا کہ آتے ہی سوگیا خواب میں دیکھتا ہے کہ عرب بدوؤں نے اس کا قافلہ لوٹ لیا ہے اور قافلے کے کافی آدمیوں کو قتل بھی کردیا ہے اور خود اس پر بھی حملہ کرکے اس کو مارڈالاہے۔ گھبرا کر بیدار ہوا تو اسے اپنے دینار یاد آگئے فوراً دوڑتا ہوا اس جگہ پر پہنچا تو دینار وہاں ویسے ہی پڑے ہوئے مل گئے۔ دینار لے کر اپنی قیام گاہ پر پہنچااور واپسی کی تیار کرکے بغداد لوٹ آیا۔

جب بغداد شریف پہنچاتو اس نے سوچا کہ پہلے حضرت شیخ حماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ وہ عمر میں بڑے ہیں یا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوں کہ آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ نے میرے سفر کے متعلق جو فرمایا تھا بالکل درست ہوا ہے اسی سوچ وبچار میں تھا کہ حسن اتفاق سے شاہی بازار میں حضرت شیخ حماد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس کی ملاقات ہوگئی تو آپ نے اس کو ارشاد فرمایا کہ ’’پہلے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت اقدس میں حاضری دو کیوں کہ وہ محبوب سبحانی ہیں انہوں نے تمہارے حق میں ستر(70)مرتبہ دعا مانگی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے تمہارے واقعہ کو بیداری سے خواب میں تبدیل فرمادیا اور مال کے ضائع ہونے کو بھول جانے میں بدل دیا ۔ جب تاجر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ جو کچھ شیخ حماد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے شاہی بازار میں تجھ سے بیان فرمایا ہے بالکل ٹھیک ہے کہ میں نے ستر(70) مرتبہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں تمہارے لیے دعا کی کہ وہ تمہارے قتل کے واقعہ کوبیداری سے خواب میں تبدیل فرمادے اور تمہارے مال کے ضائع ہونے کو صرف تھوڑی دیر کے لیے بھول جانے سے بدل دے۔(بہجتہ الاسرار صفحہ64)
ایک بی بی حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں اپنا بیٹا چھوڑ گئی کہ اس کا دل حضور سے گرویدہ ہے اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کے لیے اس کی تربیت فرمائیں۔ آپ نے اسے قبول فرماکر مجاہدے پر لگا دیا اور ایک روز اس کی ماں آئی دیکھا لڑکا بھوک اور شب بیداری سے بہت کمزور اور زرد رنگ ہوگیا اور اسے جَوکی روٹی کھاتے دیکھا جب آپؒ کے پاس حاضر ہوئی تو دیکھا کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک برتن میں مرغی کی ہڈیاں رکھی ہیں جسے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تناول فرمایا تھا۔ عرض کی !حضورآپ مرغی کھائیں اور میرا بچہ جَوکی روٹی۔ یہ سن کر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا دست اقدس ان ہڈیوں پر رکھااور فرمایا ’’جی اُٹھ اس اللہ عزوجل کے حکم سے جو بوسیدہ ہڈیوں کو زندہ فرمائیگا‘‘ یہ فرمانا تھا کہ مرغی فوراً زندہ صحیح سالم کھڑی ہوکر آواز کرنے لگی۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جب تیرا بیٹا اس درجہ تک پہنچ جائے گا تو جو چاہے کھائے۔(بہجتہ الاسرار صفحہ128)

حضرت ابو عبداللہ محمدبن ابوالعباس موصلی رحمتہ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک رات اپنے شیخ عبدالقادرجیلانی غوث صمدانی، قطب ربانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسہ بغداد میں تھے اس وقت آپ رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں بادشاہ المستنجد باللہ ابوالمظفر یوسف حاضر ہوا اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام کیا اور نصیحت کا خواست گار ہوا اور آپ کی خدمت میں دس تھیلیاں پیش کیں جو دس غلام اٹھائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا میں ان کی حاجت نہیں رکھتااور قبول کرنے سے انکار فرمادیا اس نے بڑی عاجزی کی تب حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک تھیلی اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑی اور دوسری تھیلی بائیں ہاتھ میں پکڑی اور دونوں تھیلیوں کو ہاتھ سے دبا کر نچوڑا کہ وہ دونوں تھیلیاں خون ہوکر بہہ گئیں۔ آپ نے فرمایا اے ابوالمظفر ! کیا تمہیں اللہ عزوجل کا خوف نہیں کہ لوگوں کا خون لیتے ہو اور میرے سامنے لاتے ہو۔ وہ آپ کی یہ بات سن کر حیرانی کے عالم میں بے ہوش ہوگیا۔

پھر حضرت سیدنا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ عزوجل کی قسم !اگر اس کے حضور نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ سے رشتے کا لحاظ نہ ہوتا تو میں خون کو اس طرح چھوڑتا کہ اس کے مکان تک پہنچتا۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن منبر پر بیٹھے بیان فرمارہے تھے کہ بارش شروع ہوگئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (بادل کو مخاطب کرکے) فرمایا میں تو جمع کرتا ہوں اور (اے بادل) تو متفرق کردیتا ہے تو بادل مجلس سے ہٹ گیا اور مجلس سے باہر برسنے لگا۔ راوی کہتے ہیں کہ اللہ عزوجل کی قسم! شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام ابھی پورا نہیں ہوا تھا کہ بارش ہم سے بند ہوگئی اور ہم سے دائیں بائیں برستی تھی اور ہم پر نہیں برستی تھی۔
حضرت عبدالملک ذیال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں میں ایک رات حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مدرسے میں کھڑا تھا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندر سے ایک عصادست اقدس میں لیے ہوئے تشریف فرما ہوئے میرے دل میں خیال آیا کہ کاش حضور اپنے اس عصا سے کوئی کرامت دکھلائیں۔ ادھر میرے دل میں یہ خیال گزرا اور ادھر حضور نے عصا کو زمین پر گاڑ دیا تو وہ عصا مثل چراغ کے روشن ہوگیا اور بہت دیر تک روشن رہا پھر آپؒ نے اسے اکھیڑ لیا تو وہ عصا جیسا تھا ویسا ہی ہوگیا اس کے بعدحضور نے فرمایا بس اے ذیال ! تم یہی چاہتے تھے۔

ایک دفعہ دریائے دجلہ میں زور دار سیلاب آگیا ۔ دریا کی طغیانی کی شدت کی وجہ سے لوگ ہراساں اور پریشان ہوگئے اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مدد طلب کرنے لگے حضرت نے اپنا عصاء مبارک پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے اور دریا کے کنارے پر پہنچ کر آپ نے عصاء مبارک کو دریا کی اصلی حدپر نصب کردیا اور دریاکو فرمایا کہ بس یہیں تک۔ آپ کا فرمانا ہی تھا کہ اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہوگیا اور آپ کے عصاء مبارک تک آگیا۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں ایک جوان حاضر ہوا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کرنے لگا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے میں نے آج رات ان کو خواب میں دیکھا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ عذاب قبر میں مبتلا ہیں انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور میرے لیے ان سے دعا کا کہو۔ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نوجوان سے فرمایا کیا وہ میرے مدرسہ کے قریب سے گزرا تھا؟ نوجوان نے کہا جی ہاں پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خاموشی اختیار فرمائی۔
پھر دوسرے روز اس کا بیٹا آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آج رات اپنے والد کو سبزحلہ زیب تن کیے ہوئے خوش وخرم دیکھا ہے انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں عذاب قبر سے محفوظ ہوگیا ہوں اور جولباس تو دیکھ رہا ہے وہ حضرت سید شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی برکت سے مجھے پہنایاگیا ہے پس اے میرے بیٹے ! تم ان کی خدمت میں حاضری کو لازم کرلو۔
پھر حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میں اس مسلمان کے عذاب میں تخفیف کروں گا جس کا گزر(تمہارے) مدرسہ پر ہوگا۔
(بہجتہ الاسرار صفحہ120،121،123،153،194)
اقتباس:
1۔ ’’حضور غوثِ اعظم اور عقائد نظریات‘‘ تصنیف مولانا محمدہاشم خان صاحب
2۔ ’’بہجتہ الاسرار ‘‘ تصنیف امام علی بن یوسف شطنوفی ؒ 
3۔ ’’زبدۃ الآثار ‘‘تصنیف شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی ؒ 

بشارت حسین گوندل ایڈووکیٹ