الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ

سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ


قطب الاقطاب، سیدالسادات، شیخ المشائخ، تاج العارفین، رہبر اکابرِ دین، عارث کتاب اللہ، نائب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، پیرانِ پیر، روشن ضمیر، دستگیر، قطب ربانی، شہباز لامکانی، قندیلِ نورانی، غوث صمدانی، محبوب سبحانی، محی الدین، ابو محمد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نورانی رضی اللہ عنہ ایک بہت جلیل القدر عالم باعمل ولی اللہ گزرے ہیں ہر مسلمان اُن سے بڑی عقیدت و ارادت رکھتا ہے اور ان کی ذاتِ بابرکت و باکرامت کے گوشہ گوشہ سے واقفیت رکھنے کی لگن رکھتا ہے، چنانچہ مختصراً حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حالات زندگی کی مبارک ساعتوں پر روشنی ڈالنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے تاکہ عاشقانِ غوث اعظم دستگیر اپنی کچھ تشنگی مٹا سکیں۔

ساتھ ساتھ حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعلیمات کی بھی ایک جھلک پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے تاکہ تشنگانِ ہدایت ان کی بارک تعلیمات سے واقف ہو کر اپنے عقائد و اعمال میں مذید نکھار پیدا کرلیں اور صحیح معنوں میں عاشقانِ غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کہلائے جانے کے حقدار ٹھہرائے جائییں۔

ولادت باسعادت کی پیشن گوئیاں
روحانیت کے حامل بزرگان دین سینکڑوں سال قبل ہی جان گئے تھے کہ قدرت کا ایک لاجواب روشن چمکتا دمکتا سورج دنیا میں اپنی نورانیت بکھیرنے آنے والا ہے چنانچہ یہ اہلِ روحانیت اپنے اپنے زمانے میں اس روشن و تابناک سورج کے ظہور پذید ہونے کی خبر دیتے رہے حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی دنیا میں جلوہ گری سے دوسو سال قبل کا واقعہ ہے کہ اپنے زمانے کے بڑے مشہور و معروف جلیل القدر بزرگ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ایک دن اپنی خانقاہ عالیہ کے اندر مراقبہ میں مشغول تھے کہ اچانک مراقبہ سے سر اٹھا کر فرمانے لگے۔ مجھے عالم غیب سے اطلاع ملی ہے کہ پانچویں صدی میں “جیلان“ کے اندر سیدالمرسلین، خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اطہار میں سے “غوث اعظم“ پیدا ہونگے ان کا نام عبدالقادر اور لقب “محی الدین“ ہوگا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد میں سے آئمہ کرام اور اصحاب کرام کے علاوہ انہیں اولین و آخرین زمانے کے “ہر ولی کی گردن پر میرا قدم ہے“ کہنے کا حق ہوگا۔ (تفریح الخاطر، صفحہ 26 تا 27)
اپنے دور کے شیخ کامل حضرت عزار بطایحی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے 478ھ میں یہ پیشن گوئی فرمائی کہ ایک نوجوان سید عبدالقادر ظاہر ہوگا اس کی ہیبت سے مقامات ولایت ظاہر ہونگے اور اس کی جلالت سے کشف و کرامت رونما ہونگے وہ حال پر چھا جائینگے اور محبتِ خداوندی کی بلندیوں پر پہنچ جائینگے تمام عالم امکان ان کے حوالے کر دیا جائے گا، تمام اسرارِ عالم ان پر ظاہر ہونگے رب تعالٰی کے حضور ان کی شان اس قدر بلند ہوگی کہ کسی دسرے ولی اللہ کو نصیب نہ ہوگی۔ (بہجۃ الاسرار)
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلٰی تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہونگے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں میرے آقا تیرا

متقی و پاکیزہ فطرت والدین کرام
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والدین کرام انتہائی متقی، نیک خصلت و پاکیزہ باکرامت بزرگوں میں سے ہیں۔
ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضور غوث اعثم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والد بزرگوار سید ابو صالح رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اپنی نوجوانی کے زمانہ میں شہر سے باہر تشریف لے جا رہے تھے اچانک آپ کی نگاہ قریب ہی بہتی ہوئی ایک ندی پر پڑی جس میں ایک سرخ سیب بہتا چلا جا رہا تھا آپ نے اُس سیب کو اٹھا لیا اور کاٹ کر تناول فرما لیا پھر اچانک آپ کو خیال آیا کہ نجانت یہ سب کس باغ سے ٹوٹ کر ندی میں بہہ کر آگیا تھا اور نہ معلوم اس کا مالک کون ہے آپ کے احساس تقوٰی نے آپ کو مالک کی اجازت کے بغیر سیب کھا لینے کی غلطی پر پریشان و پشیمان کردیا چنانچہ فوراً الٹے قدموں اس ندی کے کنارے کنارے چلنے لگے یہاں تک کے کئی میل چلنے کے بعد آپ کو ایک باغ نظر آیا باغ میں پہنچ کر آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ درختوں پر لگے سرخ سیبوں کی شاخیں ندی پر جھکی ہوئی تھیں آپ فوراً سمجھ گئے کہ یقیناً وہ سیب یہیں سے ٹوٹ کر ندی میں گرا تھا چنانچہ آپ نے باغ کے مالک سے ملاقات کی جو کہ اپنے زمانے کے بہت بڑے بزرگ تھے جن کا نام مبارک حضرت سیدنا عبداللہ موصعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تھا انہوں نے جب اس نیک و صالح نوجوان کی بات سنی اور ان کی بغیر اجازت سیب کھا لینے پر پشیمانی و پریشانی دیکھی معافی کا یہ انوکھا انداز دیکھا اور آپ کا زہد و تقوٰی ملاحظہ کیا تو حضرت صومعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو بے حد مسرت ہوئی اور جب شجرہ نسب دریافت کیا تو یہ جان کر مذید خوشی و انبساط محسوس کیا کہ آپ تو حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد مطہرہ میں سے ہیں۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ صاحبزادے بغیر اجازت سیب کھا لینے کی معافی اُسی صورت میں ممکن ہے کہ تم میری معذور بیٹی جو کہ آنکھوں سے اندھی، کانوں سے بہری، منہ سے گونگی اور پیروں سے لنجی ہے۔ اس سے شادی کرلو یہ سُن کر سید ابو الصالح جو کہ اپنے تقوٰی و پرہیزگاری میں اپنی مثال آپ تھے اس نکاح پر رضا مند ہوگئے نکاح کے بعد جب اپنے حجلہ عروسی میں قدم رکھا تو وہاں ایک صحیح سلامت نورانی صورت کو پایا آپ گھبرا کر الٹے قدموں باہر نکل گئے کہ شاید اندر کوئی نامحرم لڑکی موجود ہے اُسی وقت آپ نے اپنے خسر محترم سید عبداللہ صومعی کے پاس پہنچ کر ماجرا بیان کیا تو حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا مبارک ہو وہ تمہاری ہی زوجہ مطہرہ ہے میں نے اُسے اندھی اس لئے کہا تھا کہ اس نے کبھی کسی غیر محرم پر نظر نہیں ڈالی اور بہری اس لئے کہ اس نے کوئی گندی بات آج تک نہ سنی گونگی اس لئے کہ اس نے کبھی بد کلامی نہیں کی اور لنجی اس لئے کہ اس نے کبھی گھر سے باہر قدم نہ رکھا۔
یہ نیک فطرت پاکیزہ خصلت کی مالک خاتون حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ محترمہ حضرت سیدہ ام الخیر فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا تھیں۔

ولادت با سعادت
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک 471ھ بمطابق 1078ء کو ایران کے قصبہ گیلان (جیلان) میں ہوئی آپ کی ولادت کی رات آپ کے والد ماجد حضرت ابو صالح کو خواب میں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت با سعادت حاصل ہوئی آپ نے دیکھا کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے ساتھ تشریف لائے ہیں پورا مکان غیبی انوار سے روشن و منور ہو گیا حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر ارشاد فرمایا، “اے ابو صالح مبارک ہو! آج اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے تجھے وہ فرزند عطا ہوا ہے جو شیخ اعظم اور قطب زماں ہوگا وہ اللہ عزوجل کا محبوب اور میرا لختِ جگر ہے۔“ پھر حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت شریفہ ہوگئی آپ مادر زاد ولی تھے ولادت کے وقت ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے اور اللہ اللہ کی آواز آ رہی تھی، پیدا ہوتے ہی آپ نے روزہ رکھ لیا اور پورا ماہ یہی معمول رہا ولادت کے بعد آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو دودھ پلانا چاہا تو آپ نے بالکل دودھ نہ پیا حتٰی کہ سارا دن گزر گیا آخرکار مغرب کی اذان ہوئی تو افطار کے وقت آپ نے بھی دودھ پیا چنانچہ ساری بستی میں مشہور ہوگیا کہ سادات کے گھر میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں سارا دن دودھ نہیں پیتا یہاں تک کہ پورا مہینہ یہی معمول رہا۔ (طبقات الکبرٰی جلد1 صفحہ 126)
اور پھر اخیر رمضان میں بستی کے مسلمانوں کے اندر عید کے چاند کے متعلق جب اختلافات پیدا ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ سیدنا ابو صالح کے گھر سے معلوم کرو اگر ان کے شیرخوار بچے نے دودھ نہیں پیا تو روزہ ہے اور اگر دودھ پیا ہے تو عید ہے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت شریفہ فضلِ خداوندی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ کا سنِ مبارک ساٹھ برس ہوچکا تھا اور نعمتِ اولاد ی توقع باقی نہ رہی تھی تو سیدنا حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔

نام و نسب
آپ کا نام نامی عبدالقادر کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین ہوا ایران کے شہر قصبہ جیلان میں پیدائش کی نسبت کی وجہ سے جیلانی کہلائے گئے اور اپنے مقام ولایت کی بلندی کے باعث غوث الاعظم قرار دئیے گئے آپ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سید ہیں۔
صاحب بہجۃ الاسرار اور مولانا جامی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے نفحات الانس میں آپ کا نسب نامہ یوں بیان کیا ہے۔
شیخ عبدالقادر بن ابو صالح بن موسٰی بن عبداللہ بن یحیٰی زاہد بن محمد بن داؤد بن موسٰی الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنٰی بن سیدنا حضرت امام حسن بن حضرت علی بن ابی طالب۔ اس طرح آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی گیارہویں نسل تھے۔
یعنی آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روحانی بیٹے ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی حیثیت سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آلِ اطہار میں داخل ہونے کا شرف ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سلسلہ نسب گلستانِ شہادت کے دو پھول حضرت امام حسن و حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ملتا ہے جن کے والدِ شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور والدہ سیدۃ النساء حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالٰی عنہا اور جن کے نانا سیدالانبیاء ہیں۔
مظہر ذات کے مظہر ہیں زسرتابہ قدم
نور ہیں نور کی اولاد ہیں غوث الاعظم

بچپن اور لڑکپن کے واقعات
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ آپ کا پورا خاندان کیونکہ نور نبوت سے منور تھا لٰہذا آپ کا بچپن بھی اس فخر و شرف کی منہ بولتی تصویر تھا۔ آپ جب کبھی بچپن میں کوئی کھیل کھیلنے کا ارادہ فرماتے تو غیب سے آواز آتی۔ “الی یا مبارک۔“ (یعنی اے برکت والے میری طرف آ)۔ (قلائد الجواہر صفحہ9)
جب آپ مدرسہ میں تشریف لے جاتے تو آواز آتی “اللہ عزوجل کے ولی کو جگہ دے دو۔“
یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ دیگر لڑکوں کے ساتھ کبھی کسی فضول کھیل میں شامل نہ ہوئے۔ پانچ برس کی عمر میں جب پہلی بار بسم اللہ پڑھنے کی رسم کیلئے کسی بزرگ کے پاس پہنچے تو اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر سورہء فاتحہ اور الم سے لیکر 18 پارے پڑھ کر سنا دئیے اس بزرگ نے کہا بیٹے اور پڑھئیے تو فرمایا بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیونکہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں میں نے سن کر یاد کر لیا تھا۔ (کتب کثیرہ)
ایک روز آپ گھر سے باہر نکلے تو گلی میں بچوں نے آپ کو اپنے ساتھ کھیلنے کیلئے مجبور کیا جس پر آپ رضامند ہوگئے اور فرمایا اچھا میں کہوں گا لاالہ اور تم سب کہو گے الااللہ چنانچہ آپ کے اس انوکھے اور نرالے کھیل سے گلی کوچے کلمہ طیبہ کے ورد سے گونج اٹھے۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب مکتب پڑھنے کیلئے تشریف لے جاتے تو آپ کے ہمراہ فرشتے چلتے اور کہتے اس ولی اللہ کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ (بہجۃ الاسرار، صفحہ21۔ قلائد الجواہر صفحہ9)
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کم سن ہی تھے کہ آپ کے والد ماجد کا 481ھ میں انتقال ہوگیا اور یوں آپ نے اپنے ناناجان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یتیمی کی سنت کو بھی ادا کر لیا۔ اس سانحہ پر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ ماجدہ نے صبر و استقامت کا بھرہور مظاہرہ کیا اور اپنی نگرانی میں حضور غوث اعظم کا مستقبل سنوارنے میں مشغول رہیں اور اس طرح حضور غوث اعظم نے تقریباً سترہ سال تک اپنے وطن جیلان میں ہی تعلیمی مراحل طے کئے لیکن اس کے آگے مذید تعلیم کیلئے “جیلان“ میں کوئی انتظام نہ تھا چنانچہ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی والدہ ماجدہ سے بغداد جانے کی خواہش کا اظہار فرمایا گو کہ آپ کی والدہ ماجدہ بہت ضعیف ہو چکی تھیں عمر شریف بھی اٹھتر ( 78 ) سال کے قریب ہو چکی تھی اور یہ بھی اندیشہء یقینی تھا کہ اب جیتے جی اپنے اس لخت جگر کو دیکھنا نصیب نہ ہوگا مگر اس کے باوجود اس نیک فطرت کی حامل خاتون نے اپنے ہونہار فرزند کی خدا داد ذہانت اور علم کی لگن اور جستجو کو دیکھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لئے جانے کی اجازت دے دی اور فرمایا اب قیامت کے روز ملاقات ہوگی اور بوقت رخصت نصیحت فرمائی، “اے عبدالقادر کبھی جھوٹ نہ بولنا اور یہ فرما کر اپنے لختِ جگر کو خدا کے سپرد فرما دیا۔“ (بہجۃ الاسرار صفحہ8 نزہۃ الخاطر صفحہ33، قلائد الجواہر صفحہ9، نفحات الانس صفحہ 351)
چنانچہ اپنی والدہ ماجدہ کی اس نصیحت کو پلو سے باندھ کر حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ بغداد روانہ ہوگئے۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قافلہ جب “ہمدان“ کے قریب پہنچا تو ڈاکوؤں نے قافلے پر حملہ کر دیا یہ ڈاکو قوی ہیکل تھے جو سروں پر مضبوط پشم کی پوستین اوڑھے بڑے ہیبت ناک نظر آرہے تھے اور اپنے چمکدار نیزے فضا میں لہرا لہرا کر سہمے ہوئے مسافروں کو لوٹ رہے تھے چنانچہ ایک ڈاکو آپ کے پاس بھی آیا اور گرجدار آواز میں بولا، “لڑکے کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟“ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی والدہ ماجدہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بلا خوف و خطر سچ سچ بتا دیا کہ “ہاں میرے پاس چالیس دینار ہیں!“ ڈاکو کو یقین نہیں آیا کہ اس چھوٹے سے لڑکے کے پاس اتنی بڑی رقم بھی ہو سکتی ہے چنانچہ وہ آپ کو اپنے سردار “احمد بدوی“ کے پاس لے گیا سردار نے جب ماجرا سنا تو آپ سے دریافت فرمایا تو آپ نے سچ سچ بتا دیا کہ میری صدری کے استر کے نیچے چالیس دینار سلے ہوئے ہیں۔
چنانچہ ڈاکوؤں نے جب آپ کی صدری کو ادھیڑا تو واقعی چالیس دینار برآمد ہوئے سردار نے آپ سے پوچھا، “لڑکے کیا تمہیں لٹ جانے کا خوف نہ آیا جو مجھے اپنی رقم کا سچ سچ بتا دیا۔“ اس وقت حضور غوث اعظم نے فرمایا، “جب میں علم دین حاصل کرنے کیلئے اپنے گھر سے رخصت ہونے لگا تو مجھے میری ضعیف والدہ نے نصیحت فرمائی کہ ہمیشہ سچ بولنا۔ بھلا والدہ ماجدہ کی نصیحت کے آگے چالیس دینار کیا اہمیت رکھتے ہیں ؟ آپ کے منہ سے یہ کلماتِ حق سُن کر سردار رونے لگا اور کہنے لگا، “اے لڑکے شاباش! کہ تونے اپنی ماں کا وعدہ یاد رکھا اور لعنت ہے مجھ پر کہ میں اپنے رب کا وعدہ بھول گیا۔“ یہ کہہ کر سردار نے ڈاکہ زنی سے ہمیشہ کیلئے توبہ کرلی اور تمام لوٹا ہوا مال قافلہ والوں کو واپس کر دیا یہ دیکھ کر باقی ڈاکوؤں نے کہا، “اے سردار! رہزنی میں ہمیشہ ہم تیرے ساتھ رہے اور اب توبہ میں بھی ہم تیرے ساتھ ہیں۔“
اور اس طرح آپ کی حق گوئی نے ڈاکوؤں کے دل کی کایا پلٹ دی اور آپ کی اس حق گوئی کی برکت سے تمام ڈاکو تائب ہوگئے۔ (سفینۃ الاولیاء صفحہ63، نزہۃ الخاطر صفحہ32، قلائد الجواہر صفحہ9، نفحات الانس صفحہ 352)

حصولِ علم
یہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی علمی لگن اور جستجو ہی تھی کہ علم کی پیاس بجھانے کیلئے آپ نے جیلان سے چارسو میل کا طویل و کٹھن سفر طے کیا اور یوں 488ھ بمطابق 1095ء میں بغداد پہنچے اور اس زمانے کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی کا درجہ رکھنے والے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوگئے اور وہاں کے بڑے بڑے قابل ترین اساتذہ سے حدیث و تفسیر اور جملہ علوم دینیہ کے حصول میں مشغول ہوگئے۔ چند مہینوں کے بعد آپ کے پاس موجود چالیس دینار ختم ہوگئے اور نوبت فاقہ کشی تک آپہنچی آپ فاقوں پر فاقے کرتے رہے لیکن صبر کا دامن تھامے علم کے حصول میں لگے رہے خیرات نہ مانگنے کی عادت نے آپ کو ہمیشہ سوال کرنے سے روکے رکھا اور آپ دوسروں کو بھی سوال کرنے سے منع فرماتے رہے الغرض آپ آٹھ سالہ تعلیمی دور میں تنگدستی و فاقہ کشی کی سخت سے سخت صعوبتوں کو ہمت و حوصلے کے ساتھ برداشت کرتے رہے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ خود بیان فرماتے ہیں کہ “طالب علمی کے دور میں ایسی ہولناک سختیاں میں نے جھیلیں کہ اگر وہ پہاڑ پر پڑتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا جب ہر طرف سے مجھ پر مصیبتیں ٹوٹنے لگتیں تو میں زمین پر لیٹ جاتا اور پڑھنے لگتا “فان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا۔“
“بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔“ (طبقات الکبرٰی جلد1 صفحہ 126)
یوں فاقہ زدگی کی ان مشکلات کے ساتھ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ علم دین حاصل کرتے رہے اسی دوران ایک اور مُصیبت یہ ہوگئی کہ ملک میں قحط پڑگیا اور قحط اس قدر شدید تھا کہ لوگ درختوں کے پتے تک کھا گئے آپ سبزے کی تلاش میں دریائے دجلہ کے کنارے کنارے جاتے مگر وہاں پہلے ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا چنانچہ آپ صبر کرکے واپس آ جاتے کیونکہ لوگوں سے چھیننا آپ کو پسند نہ تھا اس خوفنباک قحط کی اطلاع جب آپ کی والدہ نے سنی تو آپ بے چین ہو گئیں اور اپنے لخت جگر کی مدد کرنے کیلئے بے قرار ہو گئیں۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فاقوں پر فاقے کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ زرد اور جسم لاغر ہوگیا ایک دفعہ آپ نڈھال ہوکر مسجد میں پڑے ہوئے تھے اتنے میں ایک نوجوان کہیں سے بھنا گوشت اور روٹی لیکر مسجد میں داخل ہوا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانے لگا آپ کی حالت زار دیکھ کر آپ کو کھانے میں شریک ہونے کے لئے بضد ہوگیا چنانچہ اس کی ضد پر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کھانے میں شریک ہوگئے کھانے کے بعد باتوں کے دوران جب اُس شخص کو معلوم ہوا کہ آپ جیلان کے رہنے والے ہیں تو وہ شخص بولا، “میں بھی جیلان کا رہنے والا ہوں اور طالب علم عبدالقادر کی تلاش میں ہوں۔“ اور جب اُسے معلوم ہوا کہ آپ ہی عبدالقادر جیلانی ہیں تو بے قرار ہو کر رونے لگا اور گڑگڑا کر کہنے لگا کہ “مجھے معاف کر دیجئے کہ میں نے آپ کی امانت میں خیانت کی ہے دراصل آپ کی والدہ نے میرے ہاتھ آپ کو آٹھ دینار بھیجے تھے میں نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر آپ مجھے نہیں ملے اس دوران میری جمع پونجی بھی ختم ہوگئی آخر فاقے سے مجبور ہو کر میں نے آپ کی امانت سے یہ کھانا خریدا جو آپ نے اور میں نے کھایا اس طرح آپ نے تو اپنا ہی کھایا مگر میں آپ کا مہمان بنا آپ میرا یہ قصور معاف فرما دیجئے۔ (طبقات الکبرٰی جلد1 صفحہ129، قلائد الجواہر صفحہ1009)
غرض یہ کہ حصولِ علم کے دوران فاقہ کشی کی صعوبتوں کو خوش اسلوبی سے برداشت کرتے رہے اور اس طرح آپ کا آٹھ سالہ تعلیمی دور جو اپنے دامن میں بیشمار تکالیف اور مصائب لئے ہوئے تھا اختتام پذیر ہوا اور پھر وہ مبارک ساعت آہی گئی جب آپ کے سر اقدس پر دستارِ فضیلت سجائی گئی اور آپ علوم دینیہ میں کامل ہوگئے۔

اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اساتذہ کرام کی تعداد بیشمار ہے جن سے آپ نے فقہ حدیث تفسیر کلام اور دیگر علوم دینیہ حاصل کئے یہاں چند کا ذکر حصول برکت کیلئے پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جا رہی ہے۔
(1) ابو زکریا یحیٰی بن علی الخطیب تبریزی (2) ابو الوفا علی بن عقیل البغدادی (3) ابو بکر احمد بن المظفر (4) ابو غالب محمد بن حسن الباقلانی (5) شیخ حماد الاباس (6) القاضی ابو سعید مبارک بن علی المخزومی الحنبلی (7) شیخ ابو الخطاب الکوزانی ( 8 ) ابو البرکات طلحہ العاقولی (9) ابو القاسم محمد بن علی بن میمون (10) ابو عثمان اسماعیل بن محمد اصبہانی (11) ابو طاہر عبدالرحمٰن بن احمد (12) ابو منصور عبدالرحمٰن القرار (13) ابو بکر بن مظفر (14) ابو القائم بن بنان (15) ابو محمد جعفر السراج (16) ابو طالب بن یوسف (17) ابو سعید بن جیش وغیرہ۔ (سوانح حیات پیران پیر صفحہ38 )

عارفِ کامل سے ملاقات
تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سوچا کہ کہاں جائیں کیونکہ اسی اثناء میں آپ کی والدہ محترمہ کا وصال ہو چکا تھا اس لئے واپس وطن جانا بے سود تھا چنانچہ آپ اپنے بے قرار دل کو سکون مہیا کرنے کیلئے کسی عارفِ کامل کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے تاکہ اُس کے ذریعے عشقِ الٰہی سے عرفانِ الٰہی کی منازل طے کر سکیں تاکہ اپنے دل و دماغ کو انوارِ الٰہی سے منور کر سکیں۔ شہر بغداد میں جو بے ہودگیوں اور فتنہ و فساد کی آماجگاہ بنا ہوا تھا لوگ لہو و لعب میں مبتلا تھے ایسے ماحول میں آپ کو یہاں رہنا بے حد دشوار محسوس ہو رہا تھا چنانچہ بغداد چھوڑ کر کسی صحرا کا رخ کرنا چاہا لیکن کسی غیبی آواز نے آپ کا راستہ روک لیا آواز آئی کہ عبدالقادر یہاں تمہارا رہنا بہت ضروری ہے خلقِ خدا کو تم سے فیض پہنچے گا اور تمہارے دین کو یہاں کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ چنانچہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بغداد چھوڑنے کا ارادہ بدل دیا اور مذید شدومد کے ساتھ کسی پیرِ کامل کی تلاش میں لگ گئے تاکہ اُس سے راہنمائی پاسکیں ایک دن آپ کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی ان بزرگ عارفِ کامل کا نام تھا شیخ حماد بن مسلم، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ شیخ کو دیکھتے ہی اُن سے لپٹ گئے۔ شیخ نے بھی آپ سے نہایت مشفقانہ رویہ اختیار کیا حضور غوث الاعظم برابر اپنے شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے رہے اور اپنے دل میں عشقِ الٰہی کی آگ کو بھڑکاتے رہے یہاں تک کہ مشاہدہ حق کے شوق نے آپ کو مجاہدوں پر اصرار کیا اور یوں عشقِ الٰہی میں شرابور پچیس برس تک عراق کے جنگلوں میں پھرتے رہے بالآخر عشقِ الٰہی کی چنگاری آپ کے دل میں شعلہ جوالہ بن کر بھڑک اٹھی آپ نے کشف و وجدان کی تمام منازل طے کر لیں اور تمام تر وطنی و روحانی قوتوں سے مسلح ہوکر شیطانی قوتوں کے خلاف صف آراء ہوگئے اور علمی میدان میں قدم رکھا تو باطل قوتیں اور ابلیسی طاقتیں آپ کے ایمان و عمل سے ٹکراتی رہیں مگر کامیاب نہ ہو سکیں اور ٹکرا ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں۔

شیطان کے مکرو فریب کی شکست
رایتوں میں آتا ہے کہ شیطان آپ کے چاروں طرف مکرو فریب کے جال پھینکتا رہا تاکہ ان جالوں میں آپ کو پھانس کر زیر کر لے مگر اسے کامیابی نہ ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ ان شیطانی پھندوں کو توڑنے میں مشغول رہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل کی رحمت خاص کے سبب کامیاب ہوگئے۔
روایت ہے کہ ایک دن آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ عبادت و ریاضت میں مشغول تھے کہ زمین سے آسمان تک آنکھوں کو چندھیا دینے والی تیز روشنی ظاہر ہوئی پھر اسی روشنی میں ایک چہرہ ظاہر ہوا جس نے گرجدار آواز میں آپ کو پکارا، “اے عبدالقادر میں تیرا رب ہوں اور تیری عبادت و ریاضت سے خوش ہو کر تجھ پر تمام فرائض کو معاف کرتا ہوں اور تجھ پر حرام چیزوں کو حلال کرتا ہوں لٰہذا اب جو جی میں آئے کر۔“
حضور غوث رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اتنا اعلٰی مرتبہ حاصل ہونے کے باوجود عمر بھر عبادت میں مشغول رہے اور حلال و حرام پر سختی سے پابند رہے تو کوئی اور کیونکر اس سے آزاد ہو سکتا ہے چنانچہ میں نے لاحول پڑھا تو وہ تیز روشنی فوراً غائب ہوگئی اور اندھیرا پھیل گیا وہ چہرہ جو ظاہر ہوا تھا دھواں بن کر غائب ہو گیا پھر اس میں سے آواز آئی، “اے عبدالقادر! تیرے علم نے تجھے بچا لیا۔“ یہ شیطان کا آخری وار تھا جس کا آپ نے فوراً جواب دیا کہ “اے مردود علم نے نہیں بلکہ مجھے میرے رب کی رحمت نے بچایا ہے۔“ یہ سن کر ابلیس سر پیٹنے لگا اور کہنے لگا کہ اب تو میں آپ سے بالکل مایوس ہو چکا ہوں اور آئندہ آپ پر وقت ضائع نہ کروں گا۔“ اس پر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا “دور ہو جا مردود میں تیری کسی بات کا اعتبار نہیں کرتا اور ہمیشہ تیرے مکر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔“ (طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ127، قلائد الجواہر صفحہ11، 20، 21، بہجۃ اسرار صفحہ 85، 86 )

بیعت طریقت
سخت مجاہدوں اور عبادت و ریاضت کے بعد آپ نے تزکیہ نفس کی تمام منازل طے کرلیں اور اس سلسلے میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بغداد سے باہر ویران برج میں گیارہ سال مسلسل چلہ کشی میں گزارے آخری چلے میں آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے آپ سے عہد کیا کہ میں اُس وقت تک کچھ نہ کھاؤں پیوں گا جب تک کوئی خود آخر اپنے ہاتھ سے نہ کھلائے گا چنانچہ چالیس روز گزر گئے مگر آپ نے کچھ نہ کھایا نہ پیا لیکن اپنے عہد پر سختی سے پابند رہے بالآخر بغداد کے مشہور بزرگ قاضی القضاۃ شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جو اپنے دور کے مشہور صاحب طریقت بزرگ تھے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس تشریف لائے اور اپنے دستِ مبارک سے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کھانا کھلایا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ، “شیخ کے ہاتھ سے جو لقمہ میرے منہ میں پہنچتا تھا اُس سے میرے دل میں نورِ معرفت پیدا ہوتا تھا۔“
اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے شیخ مخزومی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دستِ حق پر بیعت طریقت کرلی اور ان کے دستِ مبارک سے خرقہء ولایت پہنا۔ آپ کے پیر کامل نے آپ سے فرمایا، “اے عبدالقادر یہ خرقہ جناب سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو عطا فرمایا تھا انہوں نے حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو عطا فرمایا اور اُن سے دست بدست مجھ تک پہنچا ہے۔“
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جوں ہی یہ خرقہ ولایت پہنا تو اُن پر انوار و تجلیات کی بارش ہوگئی اور اُن پر خاص قسم کی کیف و سرور کی کیفیت طاری ہوگئی۔ آپ کے پیر کامل نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ اب اس ویرانے کو چھوڑ کر شہر کا رخ کریں اور خلق خدا میں دین و سنت کی اشاعت میں کوشاں ہو جائیں چنانچہ شیخ نے آپ کو اپنے مدرسے میں صدر المدرسین مقرر کر دیا اور خود گوشہ نشین ہوگئے چنانچہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مدرسہ میں ہی قیام فرمایا تاکہ دن رات اپنے پیر کامل کی صحبت سے فیض بھی حاصل کریں اور اسلام کی ترویج بھی ہوتی رہے چنانچہ روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ دین کی تبلیغ کا کام بھی خوب زور و شور سے انجام دیتے رہے۔ (طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ127، جامع کرامت الاولیاء جلد2، صفحہ 202)

درس و تدریس اور فتاوٰی نویسی
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب درس و تدریس کی ذمہ داری سنبھالی تو اس علم کے آفتاب سے روشنی لینے کیلئے ہزاروں طالبانِ علم جمع ہوگئے اور اس سے علمی نور حاصل کرنے مین سرگرداں ہوگئے اور یوں علم کی پیاس بجھا کر طالبان علم کو سیراب کرنے کیلئے عالم اسلام کے گوشہ گوشہ میں پھیل گئے حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ چودہ علم کا درس دیا کرتے تھے اور اس طرح پورے بیس برس یعنی 500ھ سے 521ھ تک طالبان علم کو علومِ دینیہ سے مستفیض فرمایا آپ کے بیشمار شاگرد آپ سے فارغ التحصیل ہوکر دنیا کے خطے خطے میں پھیل گئے اور اس طرح اسلامی تعلیمات کا نور پھیلنے لگا۔ (طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ 127، قلائد الجواہر، صفحہ38 )
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ علم و حکمت کی ضیاء پھیلانے کے ساتھ ساتھ دنیائے اسلام سے آئے ہوئے استفتاء کے جوابات بھی دینے کی ذمہ داری نبھاتے رہے کوئی دن ایسا نہ گزرا کہ آپ کے پاس دینی سوالات نہ آئے ہوں آپ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ فتاوٰی نویسی کو بھی برابر وقت دیتے۔ آئے ہوئے سوالات پر خوب غور و فکر کرتے اور اپنی رائے دیتے۔
آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں علماء کرام و فقہاء کرام اور وہ طلباء بھی حاضر ہوا کرتے تھے جو مختلف علوم میں دسترس تو رکھتے تھے لیکن آپ کی صحبت بابرکت سے اور آپ کے شدت علوم سے فیض حاصل کرنا اپنے لئے خوش بختی تصور کرتے تھے آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ انہیں اپنے حلقہء درس میں شریک فرما کر انہیں مستفید فرماتے۔ اپنے طلباء اور حلقہ درس میں شریک معتقدین پر آپ کی خصوصی توجہ اور نظرِ کرم ہی تھی کہ آپ کے شاگردوں نے بھی تصنیف و تالیف میں خوب دھوم مچائی اور شاندار کتب تصنیف کیں اور اس طرح آپ علم و معرفت اور ولایت کا روشن چمکتا سورج بن کر آفاقِ عالم پر جگمگانے لگے آپ کی آواز پوری دنیا میں پھیلنے لگی یہاں تک کہ تمام مخلوق آپ کے علم و کمال کا اعتراف کرنے لگی۔ (طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ127، اخبار الاخیار فارسی، صفحہ17، قلائد الجواہر، صفحہ 18، 38 )

وعظ و نصیحت
درس و تدریس و فتاوٰی نویسی کی مصروفیات ابھی جاری ہی تھیں کہ ایک دن 14 شوال 521ھ کی دوپہر آپ نے خواب میں سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت باسعادت حاصل کی آپ نے دیکھا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آپ سے ارشاد فرما رہے ہیں! “بیٹا عبدالقادر تم عوام کو وعظ و نصیحت کیوں نہیں کرتے۔“
عرض کی، “میرے آقا و مولا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں عجمی ہوں فصحائے عرب کے سامنے کیسے زبان کھولوں ؟“
تو حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ سلم نے اپنا لعابِ دہن مبارک آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان مبارک پر لگایا اور فرمایا، “اب جاؤ اور عوام کو وعظ و نصیحت کرو۔“
اور اس طرح قدرت نے آپ کو لازوال و شاندار زورِ خطابت سے نوازا۔ (سفینۃ الاولیاء، صفحہ67، اخبار الاخیار فارسی، صفحہ18 )
چنانچہ جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو ظہر کا وقت تھا آپ نے نماز ادا فرمائی اور منبر پر تشریف لے گئے اور وعظ و نصیحت شروع کی آپ کا وعظ کرنا تھا آپ کی زبان سے فصاحت و بلاغت کا سمندر جاری ہوگیا حاضرینِ محفل آپ کی اس پُر اثر زبان کے سحر میں گم ہوگئے اور ان کے دل اس کے اثر سے پگھلنے لگے۔ اور ہوتے ہوتے اس مجلس وعظ میں شہر کے کونے کونے سے لوگ آکر جمع ہونے لگے آپ کی زورِ خطابت اور وعظ و نصیحت کی شہرت عراق سے نکل کر عرب و شام و ایران تک جا پہنچی آپ کی مجلس وعظ میں تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی بالآخر آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا منبر شریف شہر سے باہر عید گاہ کے وسیع میدان میں رکھوا دیا گیا آپ کی مجلس وعظ میں ایک وقت میں ستر ستر ہزار سامعین آپ کے وعظ سننے کیلئے موجود ہوتے اور آپ کی یہ کرامت ہے کہ دور نزدیک سب کو آپ کی آواز یکساں سنائی دیتی آپ کے وعظ کا یہ اثر تھا کہ لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے اور بے ہوش ہو جاتے کچھ گریبان پھاڑ کر جنگل میں نکل جاتے اور کچھ وہیں تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے آپ کے وعظ کے وقت فضا سے رونے کی آوازیں آتی تھیں اور اکثر اوقات حاضرین مجلس اپنے ہاتھ جب فرش پر رکھتے تو اُن لوگوں پر پڑتے جو بظاہر نظر نہ آتے تھے آپ کی مجلس وعظ میں ایک ایک وقت میں چار چار سو دواتیں آپ کے مواعظ حسنہ کو لکھنے کیلئے استعمال ہوتی تھیں آپ کی مجلسِ وعظ میں عام لوگ ہی نہیں بلکہ اپنے وقت کے بیشمار اکابر مشائخ اور علماء و فقہاءٰ بھی شریک ہوا کرتے تھے یہاں تک کہ امراء وزراء اور خلیفہ بھی آپ کی مجلس وعظ میں بے ادب سر جھکا کر بیٹھتے۔ (تحفۃ القادریہ، صفحہ109، بہجۃ الاسرار، قلائد الجواہر)
حضرت ابو محمد مفرج بن شہاب شیبانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ، “سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہرت و معقولیت دیکھ کر بغداد کے علماء و فضلاء کی ایک جماعت آپ کا امتحان لینے کی نیت سے آئی اس جماعت میں ایک سو فقہیہ تھے جن پر اہل بغداد کو کامل اعتماد تھا ابھی وہ سب آکر حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مجلس میں بیٹھے ہی تھے کہ معاً میں نے دیکھا کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سینہ مبارک سے نور پھوٹنا شروع ہوا جس کو دیکھتے ہی دیکھتے علماء وقت کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں حتٰی کہ ہ سب دیوانے ہو کر چیخنے لگے اور اپنے کپڑے پھاڑنے لگے انہوں نے اپنی پگڑیاں اتار پھینکیں اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قدموں پر اپنے سر رکھ دئیے، مجلس میں ان کی چیخ و پکار سے ایسا شور برپا ہوا کہ میں نے خیال کیا کہ زلزلہ آ گیا ہے آخر غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اُن کی حالت پر رحم آیا سب کو معاف فرمایا، پھر ایک ایک کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگایا اور بتایا کہ تمہارا سوال یہ تھا اور اس کا جواب یہ ہے۔ اس واقعہ کی سارے بغداد میں دھوم مچ گئی جب علماء سے میں نے خود حقیقت حال معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ ہم جیسے ہی مجلس میں جاکر بیٹھتے تو ہمارا علم سلب ہوگیا یہاں تک کہ جب حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے سینہ مبارک سے لگایا تو ہمارا علم واپس آگیا اور ہمارے سوالات کے جو جوابات آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عنایت فرمائے وہ اس قدر مدلل تھے کہ اس سے پیشتر ہمارے ذہن میں نہ تھے۔ (تفریح الخاطر، صفحہ51، طبقات الکبرٰی، جلد1، صفحہ128، نزہۃ الخاطر، صفحہ68 )
آپ کے پُر اثر وعظ و نصیحت کا ہی اثر تھا کہ اہل بغداد جو کچھ عرصہ پہلے لعو لعب و فتنہ انگیزیوں میں مبتلا تھے بدکاریوں اور بے ہودگیوں کے غلیظ کیچڑ میں دھنسے ہوئے تھے اس پیکر رشد و ہدایت کا دامن تھام کر باہر نکل آئے اور آپ کے وعظ و نصیحت سے اپنے ظاہر و باطن کو چمکا ڈالا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دستگیری کیا فرمائی کہ یہودی ہو یا نصرانی بد عقیدہ ہو یا بد مذہب گناہگار ہو یا بدکار قاتل ہو یا لٹیرا غرض ہر ایک آپ کے دامنِ رحمت میں آکر تائب ہو جاتا آپ کے اس روحانی فیض سے ایک لاکھ فاسق و فاجر راہ راست پر آئے اور ہزاروں بد مذہبوں نے اسلام قبول کرلیا آپ کے مُریدین عالم اسلام کے چپے چپے میں پھیل گئے اور یوں اسلام کی نورانی شعاعیں عراق، شام، عرب و ایران غرض تمام عالم میں پھیل گئیں۔ مسلسل نصف صدی تک طالبانِ فیض آپ سے روحانی فیض لیتے رہے اور یوں دینِ اسلام جو نحیف و کمزور ہو چکا تھا اور اس کی آب و تاب ماند پڑھنے لگی تھی آپ کے وعظ و نصیحت اور فیض روحانی کے سبب پوری آب و تاب کے ساتھ ایسا منور ہوا کہ تمام عالم اسلام منور ہو گیا۔

دینِ اسلام کی نئی زندگی
بغداد کے ایک سنسان راستے پر ایک نوجوان مسافر اپنی دھن میں مگن چلا جا رہا تھا کہ اس نے راستے میں ایک جگہ ایک پریشان حال بوڑھے کو دیکھا جو نہایت نحیف و کمزور اور آخری سانسیں لے رہا تھا اس نوجوان کو بوڑھے کی اس حالت پر بہت رحم آیا اور اس دم توڑتے ہوئے ناتواں بوڑھے کو سہارا دینے کیلئے اپنا ہاتھ بڑھایا بوڑھے نے اپنا لرزتا کانپتا ناتواں ہاتھ نوجوان کی طرف بڑھا دیا نوجوان نے بوڑھے کا ہاتھ لیا پکڑا دیکھتے ہی دیکھتے اس بوڑھے کی حالت بدلنے لگی اور اس میں تیزی سے طاقت و توانائی آنے لگی اور کچھ ہی لمحوں بعد وہ نحیف و ناتواں کمزور بوڑھا ایک صحت مند نوجوان میں بدل گیا اس کا چہرہ پھول کی مانند کھل گیا اور مسکرانے لگا اور آنکھیں زندگی کی روشنی سے جگمگانے لگیں وہ مسافر یہ منظر دیکھ کر سخت حیرت میں مبتلا ہوگیا اس کی اس حیرت کو دیکھ کر اس نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا، اے عبدالقادر! اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں میں آپ کے ناناجان کا دین ہوں میری حالت خستہ و خراب ہو چکی تھی آپ کے ذریعے سے اللہ عزوجل نے بھی نئی زندگی بخشی ہے دراصل آپ محی الدین ہیں۔ (خزین الاصفیا، جلد1، صفحہ94، سفین الاولیا، صفحہ61، نفحات الانس، صفحہ60)
اس واقعہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اللہ عزوجل نے آپ کی ذات اقدس کو نبوت کی نیابت جیسے عظیم منصب کے لئے پہلے ہی چن لیا تھا چنانچہ اسی مقصد کے تحت آپ کی خاص تربیت فرمائی گئی اور اللہ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی سنت و تعلیمات نورانی کے مطابق ہر طرح کی ظاہری و باطنی تکمیل فرمائی اور آپ کو خود محی الدین کے عظیم لقب سے سرفراز فرمایا۔ اور حقیقتا آپ اس عظیم لقب کے حقدار بھی ہیں کہ محی الدین کے معنی ہیں دین کو زندہ کرنے والا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ دین اسلام جو دم توڑ رہا تھا آپ کے بابرکت وجود سے دوبارہ زندہ ہوگیا اور پورے عالم اسلام میں لوگ آپ کو محی الدین کے لقب سے پکارنے لگے اور آپ کو محی الدین تسلیم کرنے میں کوئی پس و پیش نہ کی حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ ہی وہ عارفِ کامل ہیں جنہوں نے روحانی اور نورانی تعلیمات و کاوشوں سے تاریک دلوں کو منور کر دیا اپنے عظیم دینی کارناموں کے سبب لوگوں میں اسلام کی نئی روح پھونک دی آپ نے جہاں توحیدِ ربانی کا سبق عام کیا وہیں عشق رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے لوگوں کے دلوں کو منور کیا لوگوں کی اخلاقی اصلاح فرمائی اور شریعت و سنت کا درس دیا دنیا سے نفرت اور آخرت کی فکر کو عام کیا معرفتِ الہی سے روشناس فرمایا اور تمام عالمِ اسلام میں اپنے فیوض و برکات جاری فرما دئیے۔

منصبِ غوثیت کبری
اللہ عزوجل کے مقرب و محبوب بندے جو اولیا اللہ کہلاتے ہیں کائنات کی ہر شے پر اللہ عزوجل کے اذن سے دسترس و تصرف رکھتے ہیں اور جو کائنات میں ہے اس وسیع نظام سے خوب واقف ہوتے ہیں عام لوگ اس کائنات کے خفیہ نظام و معاملات اور اشیا کے متعلق لاعلم ہوتے ہیں مگر یہ اولیا اللہ اپنے رب عزوجل کے راز دار ہوتے ہیں جو ظاہر و باطن سب کی خبر رکھتے ہیں ان اولیا اللہ کے بھی مختلف مراتب اور درجے ہوتے ہیں جن میں ابدال، اقطاب، غوث وغیرہ ہیں۔

غوث
رب عزوجل کا بہت ہی خاص اور مقرب بندہ ہوتا ہے جو تمام اولیا اللہ پر فوقیت رکھتا ہے اور آپ کی ذات قدرت الہی کا مظہر ہوتی ہے اس کا ہر قول اور ہر فعل اسمائے الہی کا مظہر ہوتا ہے اور اپنے اس امتیازی درجے کے سبب وہ معرفت الہی کے رازوں کو پا لیتا ہے اس کی نظر لوح محفوظ پر بھی رہتی ہے اور وہ اسرارِ الہی کی تصویر بن جاتا ہے۔
سیدنا غوث الاعظم دستگیر رحم اللہ تعالی علیہ اس بلند وبالا درجہ غوثیت پر فائز ہیں جو کسی کو حاصل نہیں اور نہ ہوگا۔ یہاں تک کہ آپ اپنے اپنے وقتوں کے تمام غوث پر برتری اور امتیاز رکھتے ہیں اور بلاشبہ غوث الاعظم ہیں۔ خود حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں، میں نے سعادتِ کبری پالی میں اسرار الہی ہوں تمہارے لئے اللہ تعالی کی حجت ہوں زمینوں میں میرا ڈنکا بج رہا ہے تمام شہر میرے حکم کے ماتحت ہیں۔ میں احوال کو سلب کر سکتا ہوں متقدمین کے سورج غروب ہوگئے مگر میرا سورج بلندی اور عظمت کے آسمان پر ہمیشہ جلوہ افروز رہ گا انسان جن سب کے مشائخ ہوتے ہیں مگر میں شیخ کل ہوں مجھے اللہ نے اپنی نگاہ خاص میں رکھا ہے مجھے میرا رب فرماتا ہے اے عبدالقادر! تمہیں میری قسم یہ چیز کھالو تمہیں میری قسم ہے یہ چیز پی لو جب میں گفتگو کرتا ہوں تو میرا رب فرماتا ہے، مجھے اپنی قسم تم سچ کہتے ہو۔ میں قرب الہی کی بارگاہ میں تنہا ہوں میرا رتبہ تم سب سے برتر ہے اور ہمیشہ کیلئے برتر ہے۔ جس شخص نے اپنے آپ کو میرے سے منسوب کیا اور میرے عقیدت مندوں میں شامل ہوا اللہ پاک اسے قبول فرما کر اپنی رحمت سے نوازتا ہے میرے سارے محبین جنت میں داخل کئے جائیں گے یہ اللہ تعالی نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔ (ماخوذ از قصیدہ غوثیہ)
الغرض غوث الاعظم اولیا اللہ میں وہ امتیازی شان رکھتے ہیں جو کسی کو حاصل نہیں ہر ولی آپ کے زیرِ سایہ ہے اور رہے گا آپ کی نسبت ہی کسی ولی اور عارف کو منصبِ ولایت پر افئز کر سکتی آپ کی نسبت کے بغیر یہ درجہ کسی کو حاصل ہو ہی نہیں سکتا آپ حقیقتا پیرانِ یر ہیں اور رہتی دنیا تک رہینگے۔
سارے اقطاب جہاں کرتے ہیں کعبے کا طواف
کعبہ کرتا ہے طواف در والا تیرا
اللہ تعالی نے آپ کو منصب غوثیت کبری اور مقام تکوین عطا فرمایا اسی لئے آپ فرماتے ہیں اگر میرا مرید مشرق میں کہیں بے پردہ ہو جائے اور میں مغرب میں ہوں تو بھی اس کی ستر پوشی کرتا ہوں۔ (بہ الاسرار)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا اے میرے مرید میرا دامن مضبوطی سے پکڑ لے اور مجھ پر پورا اعتماد رکھ میں تیری حمایت دنیا میں بھی کروں گا اور قیامت کے دن بھی۔
آپ کے درجہ غوثیت کی بلندی کا اندازہ آپ کے اس ارشاد پاک سے بھی بخوبی ہو جاتا ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، جو شخص خود کو میری طرف منسوب کرے اور مجھ سے عقیدت رکھے تو اللہ تعالی اسے قبول فرما کر اس پر رحمت فرمائے گا اگر اس کے اعمال مکروہ ہوں تو اسے توبہ کی توفیق دے گا ایسا شخص میرے مریدوں میں سے ہوگا اور اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ میرے مریدوں میرے سلسلے والوں میرے پیروکاروں اور میرے عقیدت مندوں کو جنت میں داخل فرمائے گا۔ (اخبار الاخیار)

بارگاہ غوثیت میں علمائے کرام وپیران عظام کا خراج عقیدت
یہ ایک اٹل حقیقت ہے حضور غوث اعظم غوثیت کے اعلی وبلند ترین مرتبہ پر فائز ہیں جہاں کسی اور کی پہنچ ممکن نہیں ۔ آپ کا فیض اس پوری کائنات میں جاری و ساری ہے اور رب عزوجل کے اذن سے یہ کائنات آپ کے حکم کی ماتحت ہے ۔ آپ کے درجہ فضیلت کی تصدیق و تائید تمام پیران عظام ، اولیائے کرام و علمامشائخ نے کی ۔ وہ امام المحدثین شیخ عبد الحق محدث دہلوی ہوں یا امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی، سلطان الہند معین الدین چشتی اجمیری ہوں یا حضرت بہاالدین زکریا ملتانی، حضرت قطب الاقطاب بختیار کاکی وحضرت خواجہ بہاالدین نقشبند ہوں یا حضرت مخدوم علی احمد صابر کلیری (حضرت سلطان باہو ، الغرض حضرت عبد الرحمن جامی ہوں یا امام اہلسنت احمد رضامحدث بریلوی ہر کوئی آپ کی بارگاہ غوثیت میں سر جھکائے ہوئے ہے اور اپنا آقا و مولی جانتے ہوئے بارگاہ الہی میں انہیں وسیلہ بنائے ہوئے ہے ان کے ارشادات و تعلیمات پر عمل پیرا ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ان پیران عظام واولیائے کرام کا اعتراف غوثیت و فضیلت غوث الاعظم کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں ۔

امام المحدثین حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی کا خراج عقیدت!
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی حضور غوث الاعظم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
اللہ تعالی نے آپ کو قطبیت کبری اور ولایت عظیمہ کا مرتبہ عطا فرمایا یہاں تک کہ تمام عالم کے فقہاعلماطلبااور فقراکی توجہ آپ کے آستانہ مبارک کی طرف ہوگئی حکمت و دانائی کے چشمے آپ کی زبان سے جاری ہوگئے اور عالم الملکوت سے عالم دنیا تک آپ کے کمال وجلال کا شہرہ ہوگیا اور اللہ تعالی نے آپ کے ذریعے علامات قدرت وامارت اور دلائل وبراہین کرامت آفتاب نصف النہار سے ذیادہ واضح فرمائے اور جودو عطا کے خزانوں کی کنجیاں اور قدرت وتصرفات کی لگامیں آپ کے قبضہ اقتدار اور دست اختیار کے سپرد فرمائیں تمام مخلوق کے قلوب کو آپ کی عظمت کے سامنے سرنگوں کر دیا، اور تمام اولیا کو آپ کے قدم مبارک کے سائے میں دے دیا کیونکہ آپ اللہ تعالی کی طرف سے اس منصب پر فائز کئے گئے تھے جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے ۔،، میرا یہ قدم اولیا کی گردنوں پر ہے۔ امام المحدثین فرماتے ہیں اگر دوسرے لوگ قطب ہیں تو یہ خلف صادق قطب الاقطاب ہیں اگر دوسرے لوگ سلطان ہیں تو یہ خلف صادق شہنشاہ سلاطین ہیں اور آپ کا اسم گرامی شیخ سید سلطان محی الدین عبد القادر جیلانی ہے جنہوں نے دین اسلام کو دوبارہ زندہ کیا اور طریقہ کفار کو ختم کر دیا اور نبی کریم کا بھی یہی ارشاد مبارک ہے کہ ،،الشیخ یحی قطبیت ،، شیخ کامل زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے امام المحدثین مزید ارشاد فرماتے ہیں ۔
غوث الثقلین کے معنی ہی یہ ہیں کہ جنات اور انسان اس کی پناہ لیں چنانچہ میں بیکس و محتاج بھی انہیں کی پناہ کا طلبگار اور انہی کے دربار کا غلام ہوں مجھ پر ان کا کرم اور عنایت ہے اور ان کی مہربانیوں کے بغیر کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔ مزید فرماتے ہیں امید ہے کہ اگر کبھی راہ سے بھٹک جاں تو وہ راہبری کریں اور اگر ٹھوکر کھاں تو وہ مجھے سنبھال لیں کیونکہ انہوں نے اپنے دوستوں کو یہ خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالی نے میرے لئے ایک رجسٹر بنادیا ہے جس میں میرے قیامت تک ہونے والے مریدوں کا نام لکھا ہواہے حکم الہی ہوچکا کہ میں نے ان سب کی مغفرت فرمادی ہے ، کاش میرا نام بھی آپ کے مریدوں کے رجسٹر میں لکھا ہوا ہو پھر مجھے کوئی غم نہ ہوگا کیونکہ میری خواہش کے مطابق کے میرا کام پورا ہوگیا ہے میں نامراد بھی حضرت غوث الثقلین کا مرید بن گیا ہوں قبول کرنا یا انکار کر دینا یہ ان کے ہاتھ میں ہے میں ان کے طلب گاروں میں ہوں ،ان کا چاہنا ان کے اختیار میں ہے۔ (اخبار الاخیار)

امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی کا خراج عقیدت
امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی حضور غوث اعظم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ۔ جس قدر خوارق حضور سید محی الدین جیلانی قدس سرہ سے ظاہر ہوئے ویسے خوارق ان میں کسی سے ظاہر نہیں ہوئے۔ (مکتوبات شریف دفتر اول حصہ سوم صفحہ 120)
مزید ارشاد فرماتے ہیں ۔
حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اسی راہ (ولایت) سے داخل ہونے والوں کے پیشوا ہیں گویا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قدم آنخضرت کے قدم مبارک پر ہے اور حضرت فاطمہ زہرا وحضرات حسنین رضی اللہ عنھما بھی اسی مقام پر ان کے ساتھ شامل ہیں ان کے بعد یہ منصب بالترتیب بارہ اماموں تک پہنچتا رہا یہاں تک کہ نوبت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی تک پہنچتی ہے اور یہ مرتبہ آپ کو مل گیا مذکورہ بالا اماموں اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کے درمیان کوئی شخص اس مرتبہ پرنہیں اب جس قدر فیض وبرکات تمام اقطاب اور ولیوں کو پہنچتے ہیں آپ ہی کے ذریعے پہنچتے ہیں ان کے مرکز فیض کے بغیر ولایت کا منصب کسی کو نہیں مل سکتا ۔(مکتوبات شریف فارسی جلد 3 صفحہ 251)

خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کا خراج عقیدت !
خواجہ خواجگان خواجہ معین الدین چشتی اجمیری دربار غوثیت میں یوں عرض کرتے ہیں ۔
یا غوث معظم نور ہدی مختار نبی مختار خدا
سلطان دوعالم قطب علی حیراں زجلالت ارض وسما

صدق عہد صدیق وشی ،ور عدل وعدالت چوں عمری
اے کان حیا عثمان منشی مانند علی باوجود وسخا

درعزم نبی عالی شانی ستار عیوب مریدانی
درملک ولایت سلطانی اے منبع فضل وجودوسخا

چوپائے نبی شد تاج سرت ،تاج عہد عالم شد قامت
اقطاب جہاں درپیش درت افتادہ چوپیش شاہ وگدا

گردادِ مسیح بہ مردہ رواں راوی تو بدیں محمد جان
عہد عالم محی الدین گویاں برحسن وجماعت گشتہ فدا

حضرت شاہ ولی اللہ کا خراج عقیدت!
حضرت شاہ ولی اللہ غوث اعظم دستگیر کا مقام محبوبیت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔ حضرت غوث الاعظم کی اصل نسبت ،، نسبت اویسیہ، ہے جس میں بنت سکینہ کی برکات شامل ہیں اس مقام محبوبیت کے ذریعے ایسی تجلیات الہی کا ظہور ہوتا ہے جن کی انتہا نہیں۔ (ہمعات)

حضرت خواجہ بہاالدین نقشبندیہ کا خراج عقیدت
سلسلہ نقشبندیہ کے سردار حضرت بہاالدین نقشبندحضور غوث اعظم کا بلند بالا مرتبہ اور سب پران کی برتری بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں !
بادشاہ ہردوعالم شاہ عبدالقادر است
سرور اولادآدم شاہ عبدالقادر است

حضرت بہاالدین زکریا ملتانی کا خراج عقیدت
سرگروہ سہروردیاں ہند حضرت خواجہ بہاالدین ملتانی حضور غوث الاعظم کی نیابت نبوت کے بارے میں فرماتے ہیں !
دستگیر بے کساں وچارہ بے چارگاں
شیخ عبد القادر است آں رحم اللعالمین

حضرت مولانا روم علیہ الرحم
حضرت مولانا روم قصیدہ غوثیہ میں کئے گئے حضور غوث الاعظم کے فضائل ومناقب سے بھرپور بلند وبانگ دعوں کی تائید و تصدیق کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں، فقیر کہتا ہے کہ قصیدہ غوثیہ شریف بھی اسی مقام قرب کی ایک خود دار آواز ہے جس کو غوث اعظم کے باطنی احوال کی اجمالی تفسیر سمجھنی چاہئیے۔

حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز چشتی
خانوادہ چشتیہ کے چشم وچراغ حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز چشتی بارگاہ غوثیت میں یوں عرض گزار ہیں!
یاقطب یا غوث اعظم یا ولی روشن ضمیر
بندہ ام تابند ام جز توند ارم دستگیر
بردر درگاہ والا سائلم یا آفتاب
خاطر ناشاد را کن شاد یا پیران پیر

حضرت امداد اللہ مہاجر مکی
پیر طریقت حضرت امداد اللہ مہاجر مکی بارگاہ غوثیت الاعظم میں یوں التجا کرتے ہیں !
خداوند بحق شاہ جیلاں ۔۔۔۔ محی الدین غوث وقطب دوراں
بکن خالی مرا ازہر خیالے۔۔۔۔لیکن آں کہ زور پیدا است حالے

شیخ ابو البرکات
شیخ ابو البرکات اعتراف فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
حضرت غوث الاعظم کے اذن واجازت کے بغیر کوئی ولی ظاہر اور باطن میں تصرف نہیں کرسکتا۔ ( تحفہ قادریہ صفحہ 65 ازشاہ ابوالمعالی)

علامہ عبد القادر الدین
حضرت علامہ فرماتے ہیں ہر زمانہ میں تمام قطب ،غوث اور اولیا اللہ آپ کی بابرکات سے مستفیض ہوتے رہینگے۔ (تفریح الخاطر صفحہ 38،مطبوعہ مصر )

حضرت مخدوم صابر کلیری
حضرت صابر کلیری بارگاہ غوثیت میں یوں صدا لگاتے ہیں ۔
من آمدم تو پیش تو سلطان عاشقان
ذات توہست قبلہ ایمان عاشقان
در ہر دوکون جز توکسے نیست دستگیر
دستم بگیراز محرم اے جان عاشقان

حضرت قطب الدین بختیار کاکی چشتی
حضرت قطب الدین حضور الاعظم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
قبلہ اہل صفا حضرت غوث الثقلین
دستگیر عہد جا حضرت غوث الثقلین
بے نواختہ دلم نیست کسے آنکہ وہد
خستہ راجز تو دوا حضرت غوث الثقلین
خاک پائے تو بود روشنی اہل نظر
دیدہ را بخش ضیا حضرت غوث الثقلین
مردہ دل گشتہ ام ونام تو محی الدین است
مردہ رازندہ نما حضرت غوث الثقلین

شیخ ماجد الکروی
شیخ صاحب فرماتے ہیں کہ اس وقت رے زمین پر کوئی ولی اللہ ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کے اعلی مرتبہ کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی گردن نہ جھکائی ہو۔ (بہج الاسرار صفحہ 9،قلائد الجواہر صفحہ 94)

شیخ لولوالامنی
شیخ موصوف حضور غوث الاعظم کی تمام ولیوں پر برتری ظاہر کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں میں نے (آپ کے ارشاد پر) مشرق ومغرب میں اولیا اللہ کو اپنی گردنیں جھکاتے ہوئے دیکھا اور میں نے دیکھا ایک شخص نے گردن نہ جھکائی تو اس کا حال دگرگوں ہوگیا۔ (قلائد الجواہر صفحہ 25)

حضرت سید احمد رفاعی
حضرت رفاعی خود حضور غوث الاعظم کی شان ومرتبہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ کس میں قدرت ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانی کے رتبہ کے شایان شان مناقب بیان کرے وہ تو اس پائے کے بزرگ ہیں کہ ان کے ایک جانب شریعت کا دریا اور دوسری جانب حقیقت کا دریا موجزن ہے جس میں چاہتے ہیں وہ غوطہ زن ہوجاتے ہیں۔ (خزین الاصفیا جلد1 صفحہ 98، اخبار الاخیار صفحہ 17، طبقات الکبری
جلد1 صفحہ126)

 

(پیرآف اوگالی شریف, Khushab)