ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَـآ اٰتَیْنٰـہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰـہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا‘‘[1]
’’تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے علمِ لدنی (یعنی اَسرار و معارف کا اِلہامی علم) سکھایا تھا‘‘-
آج جس موضوع پہ چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا عوام و خواص کیلئے گو کہ وہ نیا نہیں ہے - مزید یہ کہ اس کے جس خاص پہلو کی جانب آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا وہ پہلو اہل علم کے ہاں تو اجنبی نہیں ہوگا لیکن عامۃ الناس میں بہت کم لوگ اس سے واقف ہوں گے-
تمہید:
وہ موضوع بنیادی طور پہ اس نظریہ سے طلوع ہوا ہے کہ کہ آپ جسے جاننا چاہتے ہیں اُسے اُس کی تمام خوبیوں اور تمام صفات سے جاننے کی کوشش کریں - اگر آپ ایک پہلو سے جان لیں اور باقی پہلؤں سے نظریں چُرا لیں ، اس طرح نہ تو جاننے کا حق ادا ہو سکتا ہے نہ ہی اُس سے پوری طرح فیض یاب ہوا جا سکتا ہے - بلکہ اِس کے بر عکس ہر پہلو سے نہ جانناعملی و علمی طور پہ نقصان دِہ بھی ہو سکتا ہے - اس کی مثال ایمان سے بھی لی جا سکتی ہے کہ ایمان خوف اور اُمید کے درمیان میں ہے - اس سے واضح ہوتا ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے جلال و غضب کو مدِ نظر رکھنا چاہئے وہاں اُس کی رحمت و کریمی سے بھی توقع رکھنی چاہئے - فی زمانہ اہلِ تصوف کے ہاں جو علمی و عملی کمزوریاں واقع ہوئی ہیں وہ کچھ اسی طرح کے رویوں کا نتیجہ ہیں کہ لوگ جنہیں محبت کرتے ہیں یا جن سے عقیدت رکھتے ہیں اُن سے اِسی بات کو ہی کافی سمجھ لیتے ہیں کہ ’’ہم ان کے نام لیوا و اہلِ ارادت ہیں‘‘ - جبکہ اُن کے فکر و عمل کے دیگر پہلؤں سے نظریں چرا لیتے ہیں - اِس رویے کی کوکھ سے ہی نام نہاد صوفیوں کی بے عملی و بے علمی اور جعلی پیروں فقیروں نے جنم لیا ہے -
اس موضوع پہ براہ راست اپنی گفتگو سے قبل ایک نکتہ کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں عجم میں خاص کر ہند میں جو تصوف پچھلے کم از کم ڈیڑھ دو صدیوں میں دکھایا جا رہا ہے جس پہ اس ملک کی اکثریت کے جذبات و احساسات اور عقیدت وابستہ ہے؛ اس کی بنیادوں کا کھوج لگانے کی ضرورت ہے، اُس کی اصل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور از سر نو یہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ روحانی فکر یا جس کو ہم اولیاء اللہ کا علمی و عملی طریق کہتے ہیں وہ بنیادی طو ر پر کیا ہے؟ اس کے بنیادی ماخذ کیا ہیں؟ اور اس کے بانی مبانی شخصیات کی بنیادی و علمی دعوت کس جانب تھی؟
سوادِ اعظم اور تصوف:
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام میں فقہی و فکری اعتبار سے کئی مکاتبِ فِکر ہیں ، لیکن اُمّتِ اِسلامی کا سوادِ اعظم اہل السنہ کو قرار دیا گیا ہے جن کو شَرق تا غَرب پوری اُمت اسلامیہ میں اللہ تعالیٰ نے اکثریت کا قبول عطا فرمایا ہے –اہلسُنت میں فقہی اعتبار سے چار مذاہب ہیں - (۱)سیدنا امام ابو حنیفہ بن نعمان ، (۲)سیدنا اما م مالک ابن انس، (۳)سیدنا امام محمد بن ادریس الشافعی، (۴) سیدنا امام احمد ابن حنبلؒ - فکریات میں سیدنا امام ابو منصور ماتریدی، سیدنا امام ابو الحسن اشعری آئمۂ فکر و عقیدہ مانے جاتے ہیں - ان کے بعد آنے والے آئمۂ دین، فقہ و فکر میں اِن کے طریق کو قبول کرنے والے ہیں - ان معروف طبقاتِ فقہ و فکر میں وہ ایک طبقہ جس کو قبول عام میسر آیا وہ اہلِ روحانیت و اہلِ ولایت ہیں - یعنی اس طبقہ کی شخصیات، ان کے معاملات، مشاہدات و مجاہدات، مکاشفات و ریاضات کو درج بالا آئمۂ کرام کے پیروکاروں نے اختیار کیا اور اُن کی تصدیق و تائید کی -فقہی و فکری منہج میں اصولیّین کے اختلافات کے با وجود جس چیز پہ سبھی متفق رہے اور اصولِ مشترک کے طور پہ جس سے استفادہ کرتے رہے وہ علمِ باطن و راہِ طریقت ہے - گویا جو امتِ اسلامی کا سوادِ اَعظم کہلاتا ہے وہ اُس فکر کے داعی ہیں جن کا طریق طریقِ رُوحانی ہے-
سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ):
مزید برآں! ان تمام اہل تصوف و طریقت میں جو عظیم شخصیت ہیں جن سے بکثرت سلاسلِ تصوف نے اکتساب کیا وہ سیدی مرشدی محی الدین پیرانِ پیر شیخ عبد القادر الجیلانی البغدادی (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت ہے - جن سے ہماری نسبت و عقیدت میں جس قدر پختگی و وارفتگی پائی جاتی ہے وہ ہماری سوچ سے بھی بالا تر ہے- مشائخِ فقر و ولایت میں جس قدر اسمأ و القاب آپ کو مِلے ہیں وہ آپ کی عظمت و اعترافِ عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں - مثلاً: غوث الاعظم ، غوث الثقلین ، قطبِ ربانی ، شاہبازِ لامکانی ، باز اللہ الاشہب ، میراں ، محی الدین ، دستگیر ، سرِّ سُبحانی ، شیخ الشیوخ ، پیرانِ پیر ، نجیب الطرفین ، کریم الاَبوَین، ابو صالح ، سیّد الاولیأ - اِن کے علاوہ بھی کثیر ہیں - آپ کو دو شہروں کی نسبت سے یاد کیا جاتا ہے ، مگر زیادہ تر آپ کے آبائی علاقہ کی نسبت سے ، جو موجودہ ایران میں واقع ہے ’’گیلان‘‘ - اسی نسبت سے آپ گیلانی کہلاتے ہیں ، ’’گ‘‘ کو عربی میں ’’ج‘‘ پڑھتے ہیں تو الجیلانی بھی کہتے ہیں - علمائے متوسطین مثلاً امام ذہبی ؒ وغیرہم نے ’’الجیلی‘‘ بھی لکھا ہے - (شیخ ابن العربیؒ کے معروف شاگرد شیخ عبد الکریم الجیلیؒ حضرت غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کے نواسے تھے اِسی نسبت سے اُنہیں الجیلی کہا جاتا ہے )- آپؒ کے شہرِ قیام و وفات کی وجہ سے آپؒ کو ’’بغدادی‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، پاک و ہند میں لوگ عموماً آپؒ کی نسبت سے ہی بغدادی کہلاتے ہیں -
سلسلہ عالیّہ قادرِیّہ:
طریقہ قادریہ وہ واحد طریق ہے جو حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) سے منسوب ہے- قادریہ ایسا طریقہ ہے جس کو عرب ، افریقہ، ہند ، مشرقِ بعید، وسط ایشیأ ، ایشیائے کوچک ، یورپ اورجہاں جہاں بھی اسلام کی ترویج ہوئی وہاں سب سے زیادہ قبول عام حاصل ہوا – پاک و ہند میں بھی بکثرت طریقِ قادریہ کی خانقاہیں اور شیوخ موجود ہیں - حتی کہ دیگر سلاسل کے جلیل القدرشیوخ بھی حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) سے اکتسابِ فیض کرتے ہیں -
تعلیماتِ غوثیہ اور عصری تقاضے:
اِس میں کوئی شک نہیں کہ آپ (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت ظاہراً و باطناً اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی کہی جا سکتی ہے - اگر آپ کے باطنی کمالات کو دیکھا جائے تو وہ آپ کے ایک ایک لقب کی تحقیق سے عیاں و نمایاں ہوتے ہیں ، اگر آپ کی ظاہری جہود و جہات کو دیکھا جائے تو آپ کے حضور زانوئے تلمذ تَہ کرنے والوں میں کثیر نابغہ ہائے روزگار نظر آتے ہیں -
فی زمانہ بالخصوص پاک و ہند میں ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے کہ مشائخ و علماء نے سیدی غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کی ذاتِ گرامی کا صرف ایک پہلو نمایاں کیا ہے جس سے لوگ استفادہ کرتے ہیں - مگر دوسرے پہلو کے پیش کرنے میں سستی و تساہل بلکہ عدمِ توجہ سے کام لیا گیا ہے - یعنی لوگوں کو اِس سے تو متعارف کروایا گیا ہے کہ غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کو اللہ نے یہ قدرتیں بخشی ہیں کہ آپ کو پکارنے والے کی مدد کی جاتی ہے ، آپ کا منصبِ غوثیت و دستگیری تو بیان کیا گیا ہے - الحمد للہ ، ہمیں اس پہ یقین نصیب ہے - لیکن اِس کے علاوہ بھی سیدی غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کا ایسا فیضان ہے جسے جاننا اور جس پہ عمل پیرا ہونا آپ کے ارادتمند کی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے ، جو آپ سے عقیدت رکھنے کے فیوض سے ایک عظیم فیض ہے - آج کا موضوع آپ (رضی اللہ عنہ) کی شخصیت کے اُس گوشے سے خوشبو کے چند جھونکے سمیٹنا ہے -
مدارسِ اہلسنت اور نسبتِ غوثیہ:
پاک و ہند میں اہلسنت کے بڑے بڑے علمی مراکز و مدارس ہیں (الحمد للہ)، اگر اُن کے ناموں پہ غور کیا جائے تو بکثرت ایسے مدارس نظر آتے ہیں جو ’’نسبتِ غوثیہ‘‘ سے منسوب ہیں - یہ روش ایک عظیم حکمت کے طور پہ ہمارے اکابر سے چلی آ رہی ہے - اب یہاں ایک قابلِ غور نُکتہ ہے ، وہ یہ کہ؛ کسی خانقاہ یا درگاہ کا نسبتِ غوثیہ سے منسوب ہونا اس بات کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ یہ سیدنا غوثِ پاک (رضی اللہ عنہ) سے اکتسابِ فیض کرتے ہیں یا قادری ہیں- مدرسہ یعنی درس گاہ کیلئے لازمی نہیں کہ خانقاہ کی حیثیت بھی رکھتا ہو لیکن یہ لازم ہے کہ وہ مرکزِ علمی ہے جہاں معقولات و منقولات پڑھائے جاتے ہیں - ایسے کسی علمی مرکز کو نسبتِ غوثیہ (رضی اللہ عنہ) سے منسوب کرنے کا مطلب ہے کہ ہم نہ صرف آپ کے فیضِ روحانی سے اکتساب کرتے ہیں بلکہ آپ کے فیضِ علمی سے سیراب ہونے کے بھی متمنی و امید وار ہیں -
لیکن ! نسبتِ غوثیہ سے منسلک ان مدارس سے نو برس تعلیم مکمل کر کے آنے والے طلبائے کرام سے پوچھا جائے کہ 9 برس کے اس طویل عرصہ میں غوثِ پاکؒ کی کتنی کتب بطور سبق کے پڑھائی گئی ہیں ؟ تو جواب جان کر انسان حیرت زَدَہ رِہ جائے گا کیونکہ جس کی نسبت سے منسوب ہونا فخر سمجھا جائے مگر اُن کی تصنیفات و کتب سے فیض نہ بانٹا جائے واقعتاً مقامِ حیرت ہونا چاہئے-
افسوس! کہ سیدی غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کی کوئی ایک کتاب بھی ہمارے درسی نصاب کا حصہ نہیں ہے - حتیٰ کہ خانقاہوں پہ بھی جو مدارس قائم ہیں ان میں بھی ایسا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا - کاش کہ گیارہویں کی کھیر اور حلوے تناول فرمانے والے خطبأ و واعظین حضرت غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کی تصنیفات و کتب کا درس دیتے - سر الاسرار، فتوح الغیب اور الفتح الربانی اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کا درس دیا جائے - اِن کتب سے اکابر علما بہت استفادہ کرتے تھے - فتوح الغیب تو بہت ہی لا جواب و بے نظیر کتاب ہے ، شیخ محقق شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اس کی شرح لکھی- حتیٰ کہ تصوف کے ناقد ابو العباس شیخ ابن تیمیہ نے اِس کی شرح لکھی ، شیخ ابن تیمیہ کی شرح فتوح الغیب کچھ برس قبل مہتر ہالینڈ کے انگریزی ترجمہ کے ساتھ فلوریڈا (امریکہ) سے شائع کی گئی ہے - موجودہ دُنیائے عرب میں وہ شافعی و حنبلی علماء جو فکری طور پہ سلفی تحریک کے پیرَوْ ہیں اُن کے ہاں آج بھی آپؒ کا نام نہایت احترام سے لیا جاتا ہے ، اِس لئے کہ آپؒ شوافع و حنابلہ کے بڑے بڑے آئمہ و فقہا کے شیخ و اُستاد تھے - عرب کے کئی ایک سلفی علماء کے خطابات اگر سُنیں تو کئی مقامات پہ وہ اپنے خطبوں میں ’’قالَ شیخ عبد القادر‘‘ کہہ کے آپ (رضی اللہ عنہ) کا حوالہ دیتے ہیں - کہنے کا مقصد ہے کہ نہ صرف دُنیائے ولایت و تصوف میں بلکہ دنیائے علم و فکر میں بھی آپؒ کی شخصیت مُسلّمہ ہے، لہٰذا جہاں حضرت غوث پاک (رضی اللہ عنہ) کی کرامات و کمالاتِ باطنیّہ کا ذکر ہوتا ہے وہاں آپ کے کمالاتِ علمی بھی بیان ہونے چاہئیں تاکہ آپ کے ارادت مندوں اور عقیدت مندوں میں اپنے شیخ کا منہج و طریق واضح ہو ، اور وہ اپنے شیخ کے اذواق و اشواق و معمولات پہ عُمر بتِائیں -
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی(رضی اللہ عنہ) کی ذاتِ مقدسہ سے خوارق و کرامات کا ظہور بکثرت ہوا ہے اس پہ تصوف و صوفیأ کے بہت بڑے ناقد ابو العباس شیخ ابن تیمیہ کا حوالہ موجود ہے کہ ’’شیخ عبد القادر الجیلانی (رضی اللہ عنہ) کی کرامات کی اتنے طرق کے علماء نے تصدیق کی ہے کہ ہر ولی کی کرامت کا انکار کیا جاسکتا ہے لیکن شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ)کی کرامات کا انکار نہیں کیا جاسکتا‘‘-ان کی شانِ اقدس کا یہ پہلو بلا شک و شبہ ضرور ہے لیکن آپؒ کی شخصیت کا ایک بنیادی پہلو آپؒ کے علم کی عظمت و شان کا بھی ہے جس کو فی زمانہ بہت کم علماء کرام بیان کرتے ہیں -
اگر ہم واقعتاً اپنے آپ کو سلسلۂ قادریہ سے منسلک کرتے ہیں تو ہمارے لئے لازم ٹھہرتا ہے کہ جہاں ہم آپؒ کے چشمۂ روحانیت سے اپنی پیاس کو بجھاتے ہیں وہاں ہم پر یہ بھی لازم ہے کہ دینِ مُبین کے جس علم کی محافظت و آبیاری غوث پاکؒ نے کی ہے اس علم کے چشمے سے بھی اپنے آپ کو سیراب کریں-
غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کی والدہ ماجدہ کا جذبۂ علمی:
عظیم محدث، حافظ حدیث اور شارح بخاری امام ابن حجر عسقلانیؒ’’غبطۃ الناظر فی ترجمۃ شیخ عبد القادر‘‘جو کہ سیدنا غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کے مناقب پہ تصنیف ہے؛ میں فرماتے ہیں کہ:
’’سیدنا غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں بغداد مسلمانوں کا علمی و تعلیمی مرکز ہوا کرتا تھا- آپؒ کی یہ خواہش پیدا ہوئی اپنی والدہ ماجدہ کی تلقین سے کہ آپؒ تحصیل علم کیلئے بغداد تشریف لے کر جائیں-کیونکہ آپؒ کی والدہ ماجدہ اور خود آپؒ کو اتنا شوق و ذوق تھا مَیں تحصیل علم حاصل کروں-جب آپؒ کی والدہ ماجدہ نے آپؒ کو تحصیل علم کیلئے رخصت کیا تو فرمایا: اے عبد القادر جاؤ اللہ کے دین کا علم حاصل کرو اس کے عطا کئے ہوئے علوم کے ذریعے اس کی دین کی خدمت کرو یہاں تک کے مجھے بھی بھول جاؤ‘‘-
امام عسقلانیؒ مزید لکھتے ہیں کہ پھر سیدنا غوث الاعظم(رضی اللہ عنہ) اپنی والدہ محترمہ کے خط کا ذ کر کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛
’’کَانَتْ اُمِّیْ تَشْتَاقُ اِلَیَّ فَتَکْبُ اِلَیَّ الْکِتٰبَ بِذِکْرِ شَوْقِھَا اِلَیَّ فَاَکْتُبُ اِلَیْھَااِنْ شِئْتِ تَرَکْتُ وَ جِئْتُ اِلَیْکِ، فَتَنْفَذُ اِلَیَّ: لَاتَجِیْءُ وَ اشْتَغِلْ بِالْعِلْمِ‘‘
’’میری والدہ میری انتہائی مشتاق ہوتیں تھی تو مجھے خط لکھتیں میں آپ کو لکھتا کہ اگر آپ چاہیں تو میں یہ چھوڑ کر آپ کی طرف آجاتا ہوں- آپ مجھے جواباً لکھتیں کہ (میرے پاس) نہ آؤ اور تعلیم حاصل کرتے رہو‘‘-[2]
یعنی روزِ قیامت اس فخر کےساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا چاہتی ہوں کہ میرے مولیٰ !جو لعل(بیٹا) تو نے مجھے عطا کیا تھا وہ میں نے اپنے لئے سنبھال کر نہیں رکھا بلکہ تیرے دین کی خدمت اور علمِ دین کے لئے وقف کر دیا تھا-اندازہ لگائیے کہ سیدنا غوثِ پاک (رضی اللہ عنہ) کی والدہ ماجدہ کی کس قدر آرزو و تمنا تھی کہ ان کا لختِ جگر اللہ کے دین کی علم کے ذریعے خدمت کرے -
تحصیلِ علم:
غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) نے بغداد کے عظیم شیوخ سے علمِ تفسیر، علمِ فقہ اور علمِ حدیث میں عبور حاصل کیا-حیرانی اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں’’قولِ شیخ حجت نیست ‘‘ میں سیدنا غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) جیسی شخصیت کو بھی ایک طرف دھکیل دیا جاتا ہے کہ وہ صوفی ہیں - لیکن آپ ان کا علم دیکھیں کہ انہوں نے علم کو کس طریق سے اور کن مشائخ عظام سے اپنے وجود میں جاری وساری فرمایاتھا-
علمِ حدیث کے عظیم مشائخ:
’’ابو غالب محمد بن الحسن الباقلانی،ابو ابکر احمد بن المظفر، ابو القاسم علی بن بیان الرزاز،ابو سعد محمد بن خُشیش، ابو محمد جعفر بن احمد السراجؒ (مصارع العشاق کے مصنف)‘‘-
علمِ فقہ کے عظیم شیوخ:
’’ابو الوفاء علی بن عقیل (بغداد میں حنبلیوں کے شیخ تھے)، القاضی ابو سعد المبارک بن علی المخرّمی (جن سے آپ نے دست بیعت بھی حاصل کی)، ابو الحسن محمد بن القاضی ابو یعلی الحنبلی،ابو الخطاب محفوظ بن احمد الکلوذانی الحنبلیؒ ‘‘-
ادب، علمِ البیان اور بلاغت کے عظیم مشائخ:
ادب، علم البیان اور بلاغت میں آپؒ نے ابو زکریا یحیٰ التبریزیؒ سے اکتسابِ علم فرمایا -
علمِ تصوف کے عظیم مشائخ:
’’ابو محمد جعفر بن احمد سراج، شیخ حماد بن مسلم الدباس، قاضی ابوسعد (یا ابو سعید) المخرمیؒ ( آپ سے خرقہ خلافت بھی لیا، فقہ کی سند بھی لی اور آپ کے مدرسہ کو ہی آگے چلایا)‘‘-
’’غبطۃ الناظر‘‘میں امام ابن حجر العسقلانیؒ نے، ’’سیر اعلام النبلاء‘‘میں امام ذہبیؒ نے ، ’’بہجۃ الاسرار‘‘ میں علامہ محمد یحیٰ التاذفیؒ نے، ’’زبدۃ الاسرار‘‘ میں شاہ عبد الحق محدث دہلویؒ نے، اور متعددسیرت نگاروں نے آپؒ کے متعلق لکھا ہے کہ:
’’جب آپ اپنی والدہ کے حکم سے پڑھنے کے لئے آئے تو تیس برس تک آپؒ بغداد کے مختلف شیوخ سےعلمِ فقہ، علمِ حدیث، علمِ تفسیر اور علمِ تصوف علم حاصل کرتے رہے‘‘-
پھر آپؒ فرماتے ہیں کہ مجھے ججھک تھی کہ مَیں عجم کے اس قصبہ گیلان سے گیا ہوں، جہاں کے لوگوں کی زبان فارسی ہے- گو کہ مَیں عربی کو جانتا ہوں لیکن علماءِ عرب کی فصاحت و بلاغت کے سامنے میں کس طرح سے خطاب کروں-
اوپر جو شیوخ اور علم کی بات ہوئی وہ علومِ ظاہری کے متعلق تھی-اب جو گفتگو ہونے جارہی ہے کہ وہ اس ضمن میں ہے کہ آپؒ نے کن شیوخ سے بطریق باطن علم کو حاصل کیا-
قاضی ثناؤ اللہ پانی پتیؒ نے ’’تفسیر مظہری‘‘ اور شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے ’’زبدۃ الاسرار‘‘ میں رقم کیا ہے کہ:
’’مشائخ نے سیّدنا شیخ عبد القادر الجیلانی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ؛
’’رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) فَقَالَ لِیْ یَا بُنَیَّ لِمَ لَا تَتَکَلَّمُ فَقُلْتُ یَا اَبَتَاہُ اَنَا رَجُلٌ اَعْجَمِیٌّ کَیْفَ اَتَکَلَّمُ عَلٰی فُصَحَآئِ بَغْدَادَ فَقَالَ افْتَحْ فَاکَ فَفَتَحْتُ فَتَفَلَ فِیْہِ سَبْعًا وَّ قَالَ لِیْ تَکَلَّمْ عَلَی النَّاسِ وَادْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ فَصَلَّیْتُ الظُّھْرَ وَ جَلَسْتُ وَ حَضَرَنِیْ خَلْقٌ کَثِیْرٌ فَارْتَجَّ عَلَیَّ فَرَاَیْتُ عَلِیًّا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ قَائِمًا بِاِزَائِیْ فَقَالَ لِیْ اِفْتَحْ فَاکَ فَفَتَحْتُہُ فَتَفَلَ فِیْہِ سِتًّا فَقُلْتُ لَہٗ لِمَ لَمْ تُکْمِلْھَا سَبْعًا قَالَ اَدَبًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) ثُمَّ تَوَارٰی عَنِّیْ‘‘
’’میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو دیکھا کہ آپ نے مجھے فرمایا کہ اے میرے بیٹے تم کلام کیوں نہیں کرتے؟میں نے عرض کی نانا حضور میں ایک عجمی ہوں پس بغداد کے فصیح لوگوں سے کیسے کلام کروں؟ آپ (ﷺ)نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو- میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے اس میں سات مرتبہ اپنا لعاب دہن ڈالا اور فرمایا کہ لوگوں کو وعظ کرو اور انہیں اللہ تعالیٰ کے راستے کی طرف حکمت اور وعظِ حسنہ سے بلاؤ-پس میں نے ظہر کی نماز ادا کی اور بیٹھ گیا- میرے سامنے بہت ساری مخلوق حاضر تھی کہ مجھ پر کپکپی طاری ہو گئی -پس میں نے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو اپنے سامنے کھڑا ہوا دیکھا-انہوں نے فرمایا کہ اپنا منہ کھولو - پس میں نے اپنا منہ کھولا تو انہوں نے اس میں چھ مرتبہ اپنا لعابِ دہن ڈالا-میں نے عرض کی کہ سات مرتبہ مکمل کیوں نہ کیا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ادبِ رسول (ﷺ) کی وجہ سے پھر آپ مجھ سے غائب ہو گئے‘‘-
اور میں نے کہا؛
’’غَوَّاصُ الْفِکْرِ یَغُوْصُ فِیْ بَحْرِ الْقَلْبِ عَلٰی دُرَرِ الْمَعَارِفِ، فَیَسْتَخْرِجُھَا اِلٰی سَاحِلِ الصَّدْرِ، فَیُنَادِیْ عَلَیْھَا سِمْسَارَ تَرْجُمَانِ اللِّسَانِ، فَتَشْتَرِیْ بِنَفَائِسِ اَثْمَانٍ حُسْنَ الطَّاعَۃِ، فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ‘‘
’’فکر کا غوطہ خور دِل کے سمندر میں معرفت کے موتیوں پر غوطہ زن ہوتا ہے ، پس وہ انہیں نکال کر سینہ کے ساحل پر لاتا ہے، پھر ان پر زبان کے ماہر ترجمان کو بلاتا ہے، پھر وہ زبان عمدہ قیمتوں کے بدلے حُسنِ اطاعت کو ایسے گھروں (مسجدوں) میں خریدتی ہے جن کو بلند کرنے کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دے رکھی ہے ‘‘-
سب نے کہا کہ یہ وہ پہلا کلام ہے جو شیخ عبد القادر (رضی اللہ عنہ) نے کرسی پر تشریف رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا‘‘-
یعنی پہلے علمِ باطن آقا کریم (ﷺ) سے عطا ہوا پھر حضرت علی المرتضیٰ (رضی اللہ عنہ) سے عطا ہوا-اسی طرح پھر آپؒ بطریق باطنی تیسرا مقام بیان کرتے ہیں جس کو’’غبطۃ الناظر فی ترجمۃ شیخ عبد القادر‘‘ میں ابن حجر العسقلانیؒ نے، ’’زبدۃ الاسرار‘‘ میں شیخ محقق عبد الحق محدث دہلویؒ نے اور حضور غوث پاکؒ کے دیگر سیرت نگاروں نے اس واقعہ کو درج کیا ہے-وہ فرماتے ہیں کہ:
’’الشیخ القُدوَہ ابو الحسن علی بن الہیئتی نے یہ کہتے ہوئے خبر دی کہ :
’’زُرْتُ مَعَ سَیِّدِی الشَّیْخِ مُحْیِ الدِّیْنِ عَبْدِ الْقَادِرِ وَ الشَّیْخِ بَقَا بْنِ بُطُو قَبْرَ الْاِمَامِ اَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اَجْمَعِیْنَ فَشَھِدْتُہُ خَرَجَ مِنْ قَبْرِہٖ وَ ضَمَّ الشَّیْخَ، عَبْدَ الْقَادِرِ اِلٰی صَدْرِہٖ وَ اَلْبَسَہٗ خِلْعَۃً وَّ قَالَ یَا شَیْخٌ ، عَبْدَ الْقَادِرِ قَدِ افْتَقَرُوْا اِلَیْکَ فِیْ عِلْمِ الشَّرِیْعَۃِ وَ عِلْمِ الطَّرِیْقَۃِ وَ عِلْمِ الْحَالِ وَ فِعْلِ الْحَالِ-
’’میں نے سیّدی شیخ محی الدین عبد القادر جیلانی اور شیخ بقا بن بُطو کے ہمراہ امام احمد بن حنبل کے مزار کی زیارت کی- رضی اللہ عنہم اجمعین-میں نے دیکھا کہ امام احمد بن حنبلؒ اپنی قبر سے باہر تشریف لائے اور شیخ عبد القادر (رضی اللہ عنہ) کو اپنے سینے سے لگایا- آپ کو خلعت پہنائی اور فرمایا: ’اے شیخ عبد القادر! مخلوقِ خداعلمِ شریعت، علمِ طریقت، علمِ حال اور عملِ حال میں تمہارے محتاج ہیں‘‘-
وعظ و تدریس:
علامہ ابن جوزی ’’المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ:
’’ آپؒ کے شیخ ابو سعید المخرمیؒ نے ’’باب الازج‘‘ پر ایک عمدہ مدرسہ قائم کیا اور آپ کے سپر د کردیا-
’’فَتَكلَّمَ عَلَى النَّاسِ بِلِسَانِ الْوَعْظِ، وَظَهَرَ لَهُ صِيْتٌ بِالزُّهْدِ، وَ كَانَ لَهُ سَمْتٌ وَ صَمْتٌ، وَ ضَاقَتِ الْمَدْرَسَةُ بِالنَّاسِ، فَكَانَ يَجْلِسُ عِنْدَ سُؤْرِ بَغْدَادَ مُسْتَنِداً إِلَى الرِّبَاطِ، وَ يَتُوْبُ عِنْدَهُ فِي الْمَجْلِسِ خَلْقٌ كَثِيْرٌ، فَعُمِّرَتِ الْمَدْرَسَةُ، وَ وُسِّعَتْ، وَ تَعَصَّبَ فِيْ ذَلِكَ الْعَوَامُّ، وَ أَقَامَ فِيْهَا يُدَرِّسُ وَ يَعِظُ إِلٰى أَنْ تُوُفِّيَ ‘‘
’’آپ نے لوگوں کو وعظ فرمایا ، آپ کے زہد کی شہرت پھیل گئی-آپ کی صورت و ہیئت لوگوں پر خاموشی طاری کر دیتی اور یہ مدرسہ لوگوں سے تنگ پڑ گیا، لوگ آپ کی خانقاہ کے ساتھ متصل بغداد کی دیواروں پر چڑھ کر بیٹھا کرتے تھے- آپ کی مجلس میں مخلوق کی بڑی تعداد تائب ہوتی تھی پھر مدرسہ کو وسیع کر کے تعمیر کیا گیا، لوگوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیا- آپ نے اس میں اپنی وفات تک تدریس و وعظ فرمایا‘‘-
امام ذہبی نے’’سیر اعلام النبلاء‘‘میں آپ کے شیخ ابو سعید المخرمیؒ کی تاریخ وفات 513ھ لکھی ہے- لیکن انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنا مدرسہ وعظ و تدریس کے لئے سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی کے سپرد کر دیا تھا-جبکہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی(رضی اللہ عنہ) کا تاریخ وصال 561ھ ہے- گویا کم و بیش 48 برس تک غوث پاک(رضی اللہ عنہ)اس مدرسہ میں تدریس و تلقین اور علوم دین کو جاری فرماتے رہے-اس لئے جہاں آپؒ کی تعلیمات اور روحانی کمالات کا ذکر ہوتا ہے وہاں آپؒ کے وجود سے پھوٹنے والی برکت جو 48 برس تک علم کے متلاشیوں کو سیراب کرتی رہی اس کا ذکر بھی ہونا چاہیے-
آپؒ کی ذات اقدس سے منسوب لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپؒ کا فیض محض روحانی صورت میں ہی موجود نہیں بلکہ علومِ حدیث، علومِ تفسیر، علوم فقہ میں بھی جاری ہے- بطور آپؒ کے مرید و عقیدت مند ہونے کے ہم پر یہ لازم آتا ہے کہ جہاں ہم آپ کی ذات اقدس سے اکتساب روحانی کرتے ہیں وہی ہمیں اپنی نسلوں کو آپؒ کی سنت کےمطابق علم دین کیلئے بھی وقف کرنا چاہیے-
اندازہ لگائیں!آپؒ کے مدرسہ سے سالانہ تین ہزار طلباء دستارِ فضیلت حاصل کرتے تھے اور آپؒ نے ان48برسوں میں ایک لاکھ سوا لاکھ سے زائد علماء کو فارغ التحصیل کیا - اورآپ کے شاگردوں میں کوئی معمولی حیثیت کے علماء نہیں تھے بلکہ آپ کے تلامذہ کے علمی کمالات کو بیان کیا جائے تو کئی دنوں کی نشستیں بھی کم پڑیں-
جس طرح ہمارے ہاں روایت معدوم ہو گئی ہے کہ مفتیانِ کرام میں ’’مفتی اعظم‘‘ایک ٹائیٹل ہوتا تھا اسی طرح آپؒ کے شاگرد ابو الفتح نصر بن المنٰیؒ آپؒ کے وصال کے بعد اپنے عہد میں حنابلہ کے شیخ قرار پائے-مزید آپؒ کے تلامذہ میں سے چند قابل ذکر ہیں جن میں احمد بن ابو بکر بن مبارک، ابو سعید الحریمی،حسن بن مسلم (قادسیہ میں ان کی خانقاہ ہے)، محمود بن عثمان بن مکارم النعال، عمر بن مسعود البزاز، عبد اللہ الجبائی (لبنان)، حامد بن محمود الحرانی، شیخ ابو العباس ابن تیمیہ، موفق الدین ابن قدامہ المقدسی ، حافظ عبد الغنی المقدسیؒ شامل ہیں-
آپ کی تدریس کے ساتھ ساتھ وعظ کی بہت عظیم مجالس منعقد ہوتیں ، جن میں اطراف و اکناف سے ہی نہیں بلکہ پورے بلادِ اسلامیہ سے لوگ آتے ، حتی کہ اندلس و ہند سے لوگ آپ کی مجالس میں شرکت کرتے - اُس زمانے کے عظیم المرتبت شیوخ ، زُہّاد و اولیاء، اتقیا و صوفیاء ،علماء، فقہاء، فصحاء و بلغا، شُرفاء و نُجباء ، آئمہ فتاوی، بادشاہِ وقت آپؒ کی خدمت میں آ کر بیٹھتے-امام احمد کبیر الرفاعیؒ بانیٔ سلسلہ رفاعیہ، سیدنا شہاب الدین سہروردیؒ جنہوں نے سلسلہ سہروردیہ کی بنیاد رکھی، عباسیوں کا خلیفۂ وقت المستنجد باللہ اور امام السمعانیؒ جیسے جید شیوخ قابلِ ذکر ہیں-
علوم القرآن:
امام ذہبیؒ ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ میں امام السمعانیؒ کا واقعہ رقم کرتے ہیں کہ آپؒ نے فرمایا:
’’كَانَ عَبْدُ الْقَادِرِ مِنْ أَهْلِ جِيْلَانَ إِمَامَ الْحَنَابِلَةِ، وَشيْخَهُمْ فِيْ عَصْرِهِ، فَقِيْهٌ صَالِحٌ دَيِّنٌ خَيِّرٌ، كَثِيْرُ الذِّكْرِ، دَائِمُ الْفِكْرِ، سَرِيْعُ الدَّمْعَةِ، تَفَقَّهَ عَلَى الْمُخَرِّمِيِّ وَصَحِبَ الشَّيْخَ حَمَّاداً الدَّبَّاسَ مَضَيْنَا لِزِيَارتِهِ، فَخَرَجَ وَ قَعَدَ بَيْنَ أَصْحَابِهِ وَ خَتَمُوا الْقُرْآنَ، فَأَلقٰى دَرْساً مَا فَهِمْتُ مِنْهُ شَيْئاً وَأَعْجَبُ مِنْ ذَا أَنَّ أَصْحَابَهُ قَامُوْا وَأَعَادُوا الدَّرْسَ، فَلَعَلَّهُمْ فَهِمُوا لْفَهْمَ بِكَلاَمِهِ وَ عبَارَتِهِ ‘‘
’’شیخ عبد القادر (رضی اللہ عنہ ) اہل جیلان میں سے تھے اور حنابلہ کے امام اور اپنے زمانے میں ان کے شیخ (یعنی شیخ الحنابلہ) تھے، وہ ایک فقیہ، صالح، دیندار، بھلائی والے، کثرت سے ذکر کرنے والے، ہمیشہ فکر کرنے والے اور بہت زیادہ نرم دل تھے-حضرت شیخ المخرمی سے فقہ حاصل کی، شیخ حماد الدباس کی صحبت میں رہے-ہم بھی آپ کی زیارت کیلئے گئے، آپ تشریف لائے اور اپنے اصحاب کے درمیان تشریف فرما ہو گئے- انہوں نے قرآن پاک کا ختم پڑھا پھر آپ نے ایک درس دیا جس کی مجھے کچھ سمجھ نہ آئی اور اس سے بھی حیران کن یہ بات تھی کہ آپ کے ایک ساتھی کھڑے ہوئے اور انہوں نے (حضرت غوثِ پاک کے دیئے ہوئے) درس کو دہرادیا- شاید انہوں نے آپ کے کلام اور عبارت کو مکمل طور پر سمجھ لیا تھا‘‘-
یعنی امام سمعانیؒ فرماتے ہیں کہ اس درس میں اتنی علمی وسعت و عمیقیت تھی کہ میں اُن نکات کو نہ سمجھ سکا کہ آپ علم کے کن نکات کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں - لیکن آپ کےتلامذہ میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر اسی خطبے کو بالفاظ دیگر آسان لفظوں میں بیان کیا- مزید مجھے تعجب ہوا کہ آپؒ کے تلامذہ کواتنی علمی رفعت نصیب ہے کہ وہ مجھ جیسے عالم جس نے قرآن و حدیث کی تدریس میں اپنی عمر بیتادی، سے بڑھ کر آپ کے کلام اور خطبے کو جانتے ہیں-
اس واقعے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نہ صِرف غوث الاعظمؒ کو بلکہ آپ کے صحبت نشینوں کو قرآن کے نکات و لطائف اور اسرار و رموز پہ کس قدر دسترس اور مہارت حاصل تھی-
امام عبد الوہاب الشعرانیؒ نے ’’طبقات الکبریٰ‘‘ میں، امام ابن حجر العسقلانیؒ نے ’’غبطۃ الناظر‘‘میں، شیخ عبد الحق محدیث دہلویؒ نے’’زبدۃ الاسرار‘‘ میں فرمایا کہ:
’’ایک دفعہ آپ اپنے مدرسہ میں قرآن پاک کی تفسیر کا درس ارشاد فرمارہے تھے-امام عبد الرحیم الازجی اور امام ابن جوزی بھی تشریف فرما تھے-آپ نے ایک آیت کریمہ کی توجیہ بیان فرمائی تو امام ازجی نے فرمایا کہ مَیں اس سے واقف ہوں- پھر آپؒ نے دوسری توجیہ بیان فرمائی تو امام ازجی نے پھر فرمایا کہ میں اس سے واقف ہوں پھر آپؒ نے اسی آیت کریمہ کی بارہویں توجیہ بیان کی تو اس پر بھی امام ازجی نے فرمایا کہ میں اس سے واقف ہوں-پھر آپؒ نے اسی آیت کریمہ کی تیرہویں توجیہ بیان کی تو امام ازجی نے فرمایا کہ میں اس سے واقف نہیں ہوں- پھر آپ نے اسی آیت مبارکہ کی پندرھویں توجیہ ، پھر پچیسویں توجیہ، پھر انتالیسویں توجیہ بیان فرمائی تو امام ازجی نے فرمایا کہ میں ان تمام سے واقف نہیں ہوں -حتی کہ جب آپ نے اسی آیت کریمہ کی چالیسویں توجیہ بیان کی امام ازجی فرماتے ہیں کہ آپؒ کی ذات گرامی سے قرآن کریم کے ان لطائف و نکات کو سن کر محفل پہ وجد کی کیفیت طاری ہو گئی، لوگوں نےدھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیا اور امام، واعظین علماء، فقہاء، مفسرین اپنے دانتوں میں انگلیاں لے کر بیٹھ گئے کہ اس آیت کریمہ کی اتنی توجیہات نہ ہم نے کبھی سنی اور نہ کبھی پڑھی تھیں جو شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) کو اللہ پاک نے عطا فرمائی ہیں- یہ چالیس توجیہات بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا یہ سب ظاہر پہ تھیں جو علما نے بیان کی ہیں - اب ہم اِس آیت کے باطن کی طرف آتے ہیں ، تو علما میں سے کئی لوگ ایسے وجد میں آئے کہ اپنے کپڑے پھاڑنے لگے ‘‘-
اس لئے تصوف کی میراث محض کرامات، خرقِ عادت ہی نہیں ہے جو ہمارے ہاں مروج ہے بلکہ اس کی ایک علمی جہت بھی ہے جو کبار شیوخِ عظام کی زندگیوں کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے - اس لئے جب بھی آپ اپنے آپ کو اہل تصوف سے منسوب کریں تو سب سے پہلے غور و فکر کریں اور اپنے دل و دماغ میں یہ معیار قائم کریں کہ صوفی کسے کہتے ہیں؟ اور اللہ تعالیٰ نے صوفی کو کیا قدرت و دسترس عطا کی ہوتی ہے !!!
اگر ناچیز متاسفانہ طور پہ ، ندامت و شرمندگی اور جھکے سر سے یہ کہے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ فی زمانہ ہمارے ہاں ان نام نہاد ملنگوں اور ملاؤں کو صوفیاء کا نام دے دیا جاتا ہے جن کا تصوف سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے - اسی روایت پرستی کی بنیاد پر سوال کیا جاتا ہے کہ شریعت اور طریقت میں باہمی ربط کیا ہے؟ اصولاً دیکھا جائے تو یہ سوال ہی بے بنیاد ہے کیونکہ شریعت اور طریقت دو مختلف پہلو نہیں ہیں بلکہ طریقت شریعت ہی کی ایک ارتقاء یافتہ شکل ہے-راہِ طریقت پہ انسان تب ہی گامزن ہوتا ہے جب ظاہر میں علوم کثرت اختیار کر جائیں اور وجود میں عمل کی تاثیر پیدا ہوجائے - اور جب تک اعمال میں تاثیر پیدا نہ ہو انسان ترقی کر کے طریقت میں نہیں جا سکتا -
اللہ تعالیٰ نے سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) کو اتنی علمی وسعت عطا فرمائی تھی کہ آپؒ نے قرآن مجید کی دوتفاسیر مرتب فرمائیں- ایک کا نام ’’مسک الختام‘‘ہے جو کہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے مگر اس کا خطی نسخہ کتب خانۂ بغداد شریف میں موجود ہے- دوسری ’’تفسیر الجیلانی‘‘ جو کہ چھ جلدوں پر محیط ہے، استنبول اور بیروت سے چھپتی رہتی ہے - اردو میں بھی اس کی ایک دو جلدوں کا ترجمہ نظر سے گزرا ہے -اس کے علاوہ آپؒ کی کتب مبارکہ کی طویل ترین فہرست ہے جن میں چند مشہور قابل ذکر ہیں:
v الغنیۃ لطالبی طریق الحق (اخلاق و تصوف، اسلامی آداب و عقائد)
v الفتح الربانی و الفیض الرحمانی(یہ آپ کے وعظ و ارشاد کی مجالس کی گفتگو ہے)
v جلاء الخاطر من کلام شیخ عبد القادر (یہ بھی آپ کی مجالس کی گفتگو پر مشتمل ہے)
v فتوح الغیب (یہ عقائد، تصوف اور راہنمائی کے 78 مقالات پر مشتمل ہے)
v بھجۃ الاسرار (یہ بھی آپ کے وعظوں کا مجموعہ ہے)
v سر الاسرار (تصوف کے مبتدی و منتہی کےلئے عمدہ کتاب)
v الرسالۃ الغوثیۃ
v حزب الرجاء و الانتھاء
v معراج لطیف المعانی
v یواقیت الحِکم
v المواھب الرحمانیۃ
v الفیوضات الربانیۃ
v تحفۃ المتقین و سبیل العارفین
v رسائل شیخ عبد القادر (اس میں فارسی زبان میں 15رسالے ہیں)
v دیوان شیخ عبد القادر (فارسی شاعری پر مشتمل دیوان)
v تنبیہ الغبی الی رؤیۃ النبی (ﷺ) (خطی نسخہ)
v الرد علی الرافضۃ (خطی نسخہ)
v حزب عبد القادر الکیلانی (خطی نسخہ)
(نوٹ: آپؒ کی بے شمار کتب تاتاریوں کے بغداد پر حملے کے دوران ضائع ہو گئیں جو انہوں نے 656ھ میں یعنی آپ کے وصال کی ایک صدی سے بھی کم عرصہ کے بعد حملہ کر دیا اور بغداد کے کتب خانوں سے کتابوں کو اٹھا کر دجلہ میں پھینک دیا)
جب ہم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) کے طریقِ تصوف کو دیکھتے ہیں تو نہ صرف تصوف کی حقیقی تصویر سمجھنے میں دُشواری نہیں رہتی بلکہ عصرِ حاضر کے صوفی کے اخلاق و کردار کی راہیں بھی متعین ہو جاتی ہیں ، عوام کیلئے بھی اصلی اور جعلی صوفی کی شناخت کرنے میں مشکل ختم ہو جاتی ہے -
علمِ فقہ و فتاویٰ:
اب آئیے! علم فقہ پہ آپؒ کا فقہی مقام بیان کیا جائے! ’’طبقات الکبری‘‘ میں امام شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’كَانَ يُفْتِيْ عَلٰى مَذْهَبِ الْإِمَامِ الشَّافِعِيِّ، وَالْإِمَامِ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلَؒ
’’آپ (مدظلہ الاقدس)امام الشافعی اور امام احمد بن حنبلؒ کے فقہی مذہب پر فتویٰ دیتے تھے‘‘-
آپؒ کے فتوے عراق کے علمائے کرام پر پیش کئے جاتے جنہیں دیکھ کر وہ شدید تعجب میں مبتلا ہو جاتے اور کہتے کہ سبحان اللہ! اللہ کا ان پر کتنا انعام ہے‘‘-
یہاں غوث اعظم (رضی اللہ عنہ) کی فقہی مہارت کےمتعلق ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گا کہ کس قدر اللہ تعالیٰ نے انہیں علمی بصیرت عطا فرمائی تھی-جیسا کہ منقول ہے کہ:
’’علماء کے پاس ایک مسئلہ آیا کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کے لئے اس شرط پہ طلاقیں اٹھائیں ہوں کہ وہ ایسی عبادت کرے گا کہ اس وقت روئے زمین پر کوئی دوسرا شخص ویسی عبادت نہیں کرے گا- اگر اس نے وہ عبادت کی تو ٹھیک اور اگر اسے ایسی عبادت میسر نہ آئی تو اس کی بیوی کی طلاقیں ہو جائیں گی- علمائے عجم نے غور و فکر کرنے کے بعد کہا کہ اس کو شام میں لے جائیں، مسئلہ شام میں گیا وہاں سے کوئی جواب نہ ملا، فتویٰ عراق میں گیا، حجاز میں گیا، پورے بلاد اسلامیہ اور بلادِ عرب میں وہ فتویٰ گیا لیکن کوئی مفتی و عالم اس مسئلہ کا جواب نہ دے سکا - بالآخر وہ مسئلہ شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ)کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا تو آپؒ اسے دیکھتے ہی مسکرانے لگے- آپؒ نے فرمایا اس کے لئے گھوم رہے ہو ، لوگوں نےکہا جی ہاں!-آپؒ فرمایا تھوڑی مشقت کرنی پڑے گی لیکن مسئلہ حل ہو جائے گا- عرض کی ارشاد فرمائیے، آپؒ نے فرمایا روئے زمین پر مساجد بے شمار ہیں کوئی ذکر یا وظیفہ نہیں بتایا جا سکتا کہ جس کی یہ گارنٹی ہو کہ روئے زمین پر کوئی اور نہیں کر رہا- ہاں زمین پر اللہ تعالیٰ نے کعبۃ اللہ ایک رکھا ہے جس کا طواف فقط واحد عبادت ہے جو کعبہ کے گرد طواف کی صورت میں ہوتی ہے-اس لئے ان تمام طواف کرنے والوں سے گزارش کیجیے کہ وہ کچھ دیر کے لئے رک جائیں اور جس شخص نے طلاقیں اٹھائی ہیں وہ اکیلا وہاں کعبہ کا طواف کرے تو یہ واحد عبادت ہے جوروئے زمین پر اس وقت کوئی اور نہیں کر رہا ہوگا صرف وہی کر رہا ہوگا‘‘-
’’سیر اعلام النبلاء ‘‘میں امام ذہبی (رضی اللہ عنہ) نے لکھا ہے کہ:
’’كَانَ عَبْدُ القَادِرِ مِنْ أَهْلِ جِيْلَانَ إِمَامَ الحَنَابِلَةِ، وَشَيْخَهُمْ فِيْ عَصْرِهِ
’’سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) اپنے زمانہ میں (تمام)حنابلہ کے شیخ و امام تھے-
یعنی آپؒ کے زمانے میں فقہ حنبلی کا سب سے بڑا شیخ اور امام آپ کو ہی سمجھا جاتا تھا - کثیر حوالہ جات اس بات کی شہادت کے طور پہ پیش کیئے جا سکتے ہیں کہ فقہ حنبلی کا آپؒ نے صحیح معنوں میں اَحیا فرمایا - علمائے حنابلہ کی ایک ایسی جماعت آپ کے مدرسہ میں تیار ہوئی جنہوں نے حنبلی منہج کو از سرِ نَوْ واضح کیا جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا کہ آپؒ کے بعد جو ’’شیخ الحنابلہ‘‘ بنے وہ بھی آپؒ ہی کے شاگرد تھے -
علوم الحدیث:
اب آئیے! حضور غوث پاک (رضی اللہ عنہ) کے علمِ حدیث کی جانب کہ اللہ پاک نے آپؒ کو علمِ حدیث میں کتنی رفعت و وسعت عطا فرمائی ہے – اِس ضِمن میں دو بنیادی باتوں پہ توجہ دلاؤں گا - ایک؛ آپ استاذ المحدثین تھے ، بلادِ عرب کا کوئی ایسا شہر نہ تھا جہاں آپ کے شاگرد خدمتِ حدیث کیلئے نہ پہنچے ہوں - دو؛ آپ صرف استادِ حدیث یا محدث نہ تھے بلکہ حافظ الحدیث تھے - اَب آئیے اِن دونوں باتوں پہ مستند آئمۂ حدیث و سِیَر کی گواہی دیکھیں -
امام ذہبیؒ نے ’’سیر اعلام النبلاء ‘‘میں اور امام ابن رجب حنبلیؒ نے’’ذیل طبقاتِ حنابلہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ:
’’حَدَّثَ عَنْهُ: السَّمْعَانِيُّ، وَ عُمَرُ بنُ عَلِيِّ الْقُرَشِيُّ، وَ الْحَافِظُ عَبْدُ الْغَنِيِّ، وَ الشَّيْخُ مُوَفَّقُ الدِّيْنِ بْنُ قُدَامَةَ، وَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَ مُوْسَى وَلَدَاهُ، وَ الشَّيْخُ عَلِيُّ بْنُ إِدْرِيْسَ، وَ أَحْمَدُ بْنُ مُطِيْعِ الْبَاجِسْرَائِيُّ، وَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ مُحَمَّدُ بْنُ لَيْثِ الْوُسْطَانِيُّ، وَ أَكْمَلُ بْنُ مَسْعُوْدِ الْهَاشِمِيُّ، وَ أَبُوْ طَالِبٍ عَبْدُ اللَّطِيْفِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْقُبَّيْطِيِّ، وَخَلْقٌ‘‘
’’آپؒ سے امام سمعانی، عمر بن علی القرشی، الحافظ عبد الغنی ، شیخ موفق الدین بن قدامہ اور آپ کے دونوں صاحبزادوں حضرت شیخ عبد الرزاق اور حضرت شیخ موسیٰ نے حدیث روایت کی ہے؛اور شیخ علی بن ادریس، احمد بن مطیع، ابوہریرہ بن لیث وسطانی، اکمل بن مسعود ہاشمی، ابو طالب عبد اللطیف بن محمد بن قبیطی اور ایک مخلوق (آئمہ کی کثیر تعداد) نے روایتِ حدیث کی ہے ‘‘-
محمد بن یحیٰ التاذفیؒ ’’قلائد الجواہر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
’’اَلْحَافِظُ اَحَادِیْثُ جَدِّہٖ سَیِّدِالْمُرْسَلِیْنَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘
’’سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) اپنے جد امجد اپنے نانا جان آقا دو عالم (ﷺ) کی احادیث کے حافظ تھے‘‘- (یعنی آپؒ حافظ الحدیث تھے)
علمِ حدیث میں ماہرینِ حدیث کیلئے مختلف اعزازات ہیں ، جیسے حجت ، حاکم ، حافظ ، امیر المؤمنین فی الحدیث و دیگر - حضرت غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) کیلئے محدثین نے ’’حافظ الحدیث‘‘ کا لقب کہا ہے - حافظ الحدیث ایک خاص اصطلاح ہے جس پہ پورا اُترنے کا ایک معیار (Criteria) ہے ، جو اُس معیار پہ نہ ہو محدثین اُسے حافظ شمار نہیں کرتے -
’’اَلْحَافِظُ وَ ھُوَ الَّذِیْ اَحَاطَ عِلْمُہٗ بِمِائَةِ اَلْفِ حَدِیْثٍ مَتَنًا وَ اِسْنَادًا وَ اَحْوَالِ رُوَاتِہٖ جَرْحًاوَتَعْدِیْلًا وَ تَارِیْخًا ‘‘
’’حافظ حدیث وہ ہے جسے کم از کم ایک لاکھ احادیث متن اور اسناد کے ساتھ زبانی یاد ہوں اور وہ اس کی (سند میں آنے والے تمام) راویوں کے احوال اور ا س کی جرح و تعدیل اور تاریخ سے واقف ہو‘‘-
اس لئےحافظ حدیث ہونا ایک الگ معیار ہے جو لازم نہیں ہے کہ ہر دور میں موجود ہو-اسی طرح امام ذہبیؒ کو ’’خاتم الحفاظ‘‘ کہا گیا ہے -
امام جلال الدین السیوطی (المتوفیٰ: 911ھ) ’’طبقات الحفاظ‘‘ میں شیخ عبد الرزاق بن شیخ عبد القادر الجیلانی (رضی اللہ عنہ) کے تذکرہ میں آپؒ کو حفاظ کے سترہویں طبقے میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ؛
عَبْدُ الرَّزَّاقِ ابْنُ الشَّيْخِ عَبْدِ الْقَادِرِ اَلْجِيْلِيْ اَلْإِمَامُ الْحَافِظُ اَلْمُحَدِّثُ الزَّاهِدُ أَبُوْ بَكْرِ بْنِ أَبِيْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِيْ صَالِحٍ
عبد الرزاق ابن شیخ عبد القادر الجیلانی ، الامام، الحافظ، المحدث، الزاہد، ابو بکر بن ابو محمد بن ابو صالح
اسی طرح امام ذہبیؒ نے ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں ان شخصیات کو جمع کیا ہے جو آقا کریم (ﷺ) کی احادیث کے حفاظ ہو گزرے ہیں؛ اس میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ:
الشَّيْخُ الْقُدْوَۃَ أَبِيْ مُحَمَّدِ عَبْدِ الْقَادِرِ اِبْنِ أَبِيْ صَالِحٍ الْجِيْلِيِّ الْإِمَامُ اَلْمُحَدِّثُ اَلْحَافِظُ اَلزَّاهِدُ
یعنی امام سیوطی اور امام ذہبی اور محمد بن یحیٰ التاذفیؒ نے حضور غوث پاک (رضی اللہ عنہ) کوحفاظ حدیث میں شمار کیا ہے-
امام شمس الدین الذہبیؒ نے اپنی ایک اور کتاب ’’المعین فی طبقات المحدثین‘‘ میں حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے لے کر اپنے زمانے تک کے 2424محدثین کرام کا تذکرہ کیا ہے جن میں سیدنا شیخ عبد القادر الجیلانی (رضی اللہ عنہ) کو 550ھ کے مشائخ الحدیث میں شمار کیا ہے-جبکہ آپؒ کے صاحبزادگان حضرت شیخ ابو نصر موسیٰ بن شیخ عبد القادر الجیلانی اور حضرت ابو نصر شیخ عبدا لرزاق بن شیخ عبد القادر الجیلانی کو 600ھ سے لے کر 625ھ تک کے درمیان مذکور مشائخ الحدیث میں شمار کیا ہے-اسی طرح آگے آپؒ کے پوتے شیخ العماد نصر بن عبد الرزاق بن شیخ عبد القادر الجیلانی کو بھی مشائخ الحدیث میں شمار کیا ہے‘‘-
اسی طرح امام ذہبیؒ نے’’ سیر اعلام النبلاء‘‘ میں سیدنا غوث پاک (رضی اللہ عنہ) کے فرزندسیدنا شیخ عبد الرزاقؒ کو بھی حافظ الحدیث فرمایا اور آپؒ کے صاحبزادے فضل اللہ بن عبد الرزاق ؒکا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اِبْنُ الحَافِظِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ابْنِ الإِمَامِ القُدْوَةِ الشَّيْخِ عَبْدِ القَادِرِ
خود بھی حافظ الحدیث ، بیٹے بھی حفاظِ حدیث ؛ خود بھی ساری زندگی اپنے نانا جان حضرت خاتم الانبیاء (ﷺ) کی میراثِ علم کی حفاظت کی اور اولاد کو بھی یہی راستہ دکھایا - یہ تھے طریقہ قادریہ کے بانی اور یہ تھا تصوف و تزکیّہ پہ اُن کا عملی طریق اور یہ تھا اُن کی بصیرت (VISION) میں ایک صوفی کا کردار -
سوال یہ ہے کہ ہمارے دل و دماغ میں سیدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ کے علمی کمالات کو جان کر کیا نقشہ اُبھرتا ہے کہ اس امت کو بیدار کرنے کے لئے آج کے صوفی کو کیسا ہونا چاہیے؟؟؟
تربیت ِ اولاد:
اب آئیےکہ! سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) نے اپنے خانوادے کی تربیت کیسے کی؟ آپ کے بعض سیرت نگاروں نے دس، بعض نے گیارہ اور بعض نے بارہ فرزند لکھے ہیں-جن میں سے اختصار سے ایک ایک جملے کے ساتھ آپ کے آٹھ فرزندوں کا ذکر کیا جائے گا جس سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رضی اللہ عنہ) اپنے فرزندوں کو کیسا صوفی بنتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے اور کس طرح تصوف کی ترویج و اشاعت چاہتے تھے-
شیخ عبد الوهّاب بن عبد القادر (رضی اللہ عنہ):
وَ كَانَ فِيْ طَلِيْعَةِ أَوْلَادِهٖ، وَالَّذِيْ دَرَّسَ بِمَدْرَسَةِ وَالِدِهٖ فِيْ حَيَاتِهٖ نَيَابَةً عَنْهُ، وَ بَعْدَ وَالِدِهٖ وَعَظَ وَ أَفْتٰى وَ دَرَّسَ، وَ كَانَ حُسْنَ الْكَلَامِ فِيْ مَسَآئِلِ الْخِلَافِ فَصِيْحاً ذَا دَعَابَةٍ وَّ كِيَاسَةٍ، وَ مُرُوْءَةٍ وَّ سَخَآءٍ، وَ قَدْ جَعَلَهُ الْإِمَامُ النَّاصِرُ لِدِيْنِ اللهِ عَلَى الْمَظَالِمِ فَكَانَ يُوْصِلُ حَوَائِجَ النَّاسِ اِلَيْهِ،
ان کا شمار بڑے صاحبزادگان میں ہوتا تھا جنہوں نے اپنے والد (شیخ عبد القادر (رضی اللہ عنہ)) کے مدرسہ میں آپ کی زندگی کے دوران ہی آپ کی نیابت کرتے ہوئے تدریس فرمائی - پھر آپ کے بعد وعظ فرمایا، فتویٰ نویسی کی اور درس و تدریس فرمائی-اختلافی مسائل میں فصاحت، عمدہ مزاح اور مہذبانہ انداز میں بڑی اچھی گفتگو کے مالک تھے- صاحبِ مروت اور سخاوت والے تھے -امام ’’الناصر لِدِیْنِ اللّٰہ‘‘ نے آپ کو لوگوں کے شکایات سننے پر معمور فرما دیا، پس آپ لوگوں کی ضروریات کو امام تک پہنچاتے تھے-
شیخ عيسٰى بن عبد القادر(رضی اللہ عنہ):
اَلَّذِيْ وَعَظَ وَ أَفْتٰى وَ صَنَّفَ مُصَنَّفَاتٍ مِّنْهَا كِتَابٌ "جَوَاهِرُ الْأَسْرَارِ وَ لَطَآئِفُ الْأَنْوَارِ" فِيْ عِلْمِ الصُّوْفِيَةِ، قَدِمَ مِصْرَ وَ حَدَّثَ فِيْهَا وَ وَعَظَ وَ تَخَرَّجَ بِهٖ مِنْ أَهْلِهَا غَيْرُ قَلِيْلٍ مِّنَ الْفُقْهَآءِ
’’حضرت شیخ عیسیٰ نے بھی تدریس کی ، وعظ فرمایا اور کئی کتب تحریر فرمائیں جن میں سے ایک کتاب ’’جواہر الاسرار و لطائف الانوار‘‘ صوفیاء کے علم کے بارے میں ہے-آپ مصر تشریف لے گئے اور وہیں حدیث پاک کی تدریس فرمائی اور وعظ و نصیحت کی- مصر کے بے شمار فقہاء آپ سے فیض یافتہ ہیں‘‘-
شیخ عبد العزيز بن عبد القادر(رضی اللہ عنہ):
وَ كَانَ عَالِماً مُتَوَاضِعًا، وَ عَظَ وَ دَرَّسَ، وَ خَرَّجَ عَلٰى يَدَيْهِ كَثِيْرٌ مِّنَ الْعُلَمَآءِ، وَ كَانَ قَدْ غَزَا الصَّلِيْبِيْنَ فِيْ عَسْقَلَانَ وَ زَارَ مَدِيْنَةَ الْقُدْسِ وَ رَحَلَ جِبَالَ الْحِيَالِ
’’حضرت شیخ عبد العزیز ایک تواضع پسند عالم تھے جنہوں نے وعظ بھی فرمایا اور تدریس بھی کی- بہت سے علماء نے آپ سے استفادہ کیا-آپ نے سُلطان صلاح الدین ایُّوبی کے ہمراہ ’’عسقلان‘‘ میں صلیبیوں سے جنگ بھی فرمائی‘‘ ، قدس میں زیارت و قیام فرمایا -
شیخ عبد الجبار بن عبد القادر(رضی اللہ عنہ):
’’تَفَقَّهَ عَلٰى وَالِدِهٖ وَ سَمِعَ مِنْهُ وَ كَانَ ذَا كِتَابَةٍ حَسَنَةٍ، سَلَكَ سَبِيْلَ الصُّوْفِيَةِ‘‘
’’آپ نے اپنے والد گرامی سے علمِ فقہ حاصل کیا اور حدیث پاک کی سماعت کی- آپ بہت اچھی کتابت فرماتے تھے- آپ بھی صوفیاء کے طریقے پر چلے ‘‘-
شيخ عبد الرزاق بن عبد القادر (رضی اللہ عنہ):
’’وَ كَانَ حَافِظًا مُتَّقِنًا حُسْنَ الْمَعْرِفَةِ بِالْحَدِيْثِ فَقِيْهًا عَلٰى مَذْهَبِ الْإِمَامِ أَحْمَدِ بْنِ حَنْبَلٍ، وَرْعًا مُنْقَطِعًا فِيْ مَنْزِلِهٖ عَنِ النَّاسِ، لَايَخْرُجُ إِلَّا فِي الْجُمُعَاتِ‘‘
’’حضرت شیخ عبد الرزاق متقی، حافظ، حدیث پاک کا عمدہ علم رکھنے والے اور امام احمد بن حنبل کے مسلک پر فقیہ تھے- آپ انتہائی پرہیزگار تھے اور اپنے گھر میں (بھی) لوگوں سے (ملنے سے) کنارہ کشی فرماتے تھے- آپ صرف نمازِ جمعہ کیلیے ہی باہر تشریف لایا کرتے تھے‘‘-
شیخ إبراهيم بن عبد القادر(رضی اللہ عنہ):
تَفَقَّهَ عَلٰى وَالِدِهٖ وَ سَمِعَ مِنْهُ وَ رَحَلَ إِلٰى وَاسِطٍ فِي الْعِرَاقِ، وَ تُوُفِّيَ بِهَا سَنَةَ 592 هـ.
’’حضرت شیخ ابراھیم نے اپنے والد گرامی (شیخ عبد القادر الجیلانی قدس اللہ سرّہ) سے فقہ حاصل کی اور حدیث پاک کی سماعت کی- آپ نے عراق میں ’’واسط‘‘ کی طرف کوچ فرمایا اور وہیں پر 592ھ میں وفات پائی-
شیخ يحيىٰ بن عبد القادر(رضی اللہ عنہ):
كَانَ فَقِيْهًا مُحَدِّثَانِ انْتَفَعَ النَّاسُ بِهٖ، وَ رَحَلَ إِلٰى مِصْرَ ثُمَّ عَادَ إِلٰى بَغْدَادَ وَ تُوُفِّيَ فِيْهَا سَنَةَ 600 هـ، وَ دُفِنَ بِرِبَاطِ وَالِدِهٖ فِي الْحَلْبَةِ.
’’حضرت شیخ یحییٰ بہت بڑے فقیہ تھے جن سے لوگوں کی کثیر تعداد نے استفادہ کیا- پہلے آپ مصر کی طرف تدریس و تعلیم اور ارشاد و تلقین کیلئے تشریف فرما ہوئے پھر بغداد لوٹ آئے اور یہیں 600ھ میں وفات پائی اور ’’حلبہ‘‘ میں اپنے والد گرامی کی خانقاہ میں مدفون ہوئے ‘‘-
شیخ موسٰى بن عبد القادر (رضی اللہ عنہ):
تَفَقَّهَ عَلٰى وَالِدِهٖ وَ سَمِعَ مِنْهُ وَ رَحَلَ إِلٰى دِمَشْقَ وَ حَدَّثَ فِيْهَا وَ اسْتَوْطَنَهَا، ثُمَّ رَحَلَ إِلٰى مِصْرَ وَ عَادَ إِلٰى دِمَشْقَ وَ تُوُفِّيَ فِيْهَا وَ هُوَ آخِرُ مَنْ مَاتَ مِنْ أَوْلَادِهٖ‘‘
’’حضرت شیخ موسیٰ نے اپنے والدِ گرامی (شیخ عبد القادر (رضی اللہ عنہ) سے فقہ سیکھی اور حدیث پاک کی سماعت کی- آپ نے’’دمشق‘‘ کی طرف سفر فرمایا، وہیں (ہزاروں تلامذہ کو) حدیث پاک پڑھائی اور وہیں رہائش اختیار فرما لی-پھر آپ مصر بھی منتقل ہوئے لیکن دمشق لوٹ آئے اور وہیں وفات پائی-آپ اپنے والد گرامی کی اولاد میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے‘‘-
اب آئیے! حضور غوث پاک (رضی اللہ عنہ) کے پوتوں اور پر پوتوں کی علمی وسعت کی جانب- امام ابن رجب الحنبلیؒ ’’ذیل طبقات حنابلہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ :
’’الحافظ عبد الرزاق بن شیخ عبد القادر الجیلانی کے فرزند شیخ نصر بن عبد الرزاق (غوث پاک (رضی اللہ عنہ) کے پوتے) قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) کے عہدے تک پہنچے اور آپ کے پرپوتے شیخ محمد بن نصر بن عبد الرزاق (حضور غوث پاک (رضی اللہ عنہ) کے پر پوتے) بھی قاضی القضاۃ کے عہدے تک پہنچے لیکن بعد میں اسے ترک کرکے اپنے پردادا کے مدرسے میں تدریس شروع فرما دی‘‘-
حضور غوثِ پاک (رضی اللہ عنہ) کے پر پرپوتے شیخ محمد بن نصر بن عبد الرزاق بن عبد القادر (رضی اللہ عنہ)کے بیٹے شیخ احمد ظہیر الدین بھی قاضی القضاۃ تھے، اِن کے فرزند اناطولیہ کے طرف ہجرت فرما کر گئے اور وہاں عامۃ الناس کی تدریس و تربیت فرمائی -
سلسلہ قادریہ کے بانی حضرت غوثِ پاک شیخ عبد القادر الجیلانی (رضی اللہ عنہ) خود صوفیٔ باعمل، محدث و فقیہ ، بیٹے صوفیٔ باعمل، محدث و فقیہ، پوتے صوفیٔ باعمل،محدث و فقیہ، پر پوتے صوفیٔ باعمل، محدث و فقیہ، پر پرپوتے صوفیٔ باعمل، محدث و فقیہ- یہاں پھر یہی سوال قائم ہوتا ہے کہ سلسلہ قادریہ سے منسوب صوفیاء اور صوفیانہ تحریکوں کا اپنے شیخ اور اُن کے عظیم خانوادے کے مثالی کردار کو سامنے رکھتے ہوئے کیا معیار اور فریضہ بنتا ہے ؟
اختتامیہ:
پیرانِ پیر (رضی اللہ عنہ) کو اگر رول ماڈل مانا جائے تو جس شخص کا تعلق شریعتِ محمدی (ﷺ) کے ساتھ نہیں ہے اس کو صوفی کا لقب دینا یا پیر فقیر کہنا تصوف اور پیری فقیری پہ ایک بدنما دھبہ لگانے کے مترادف ہے -کیونکہ اصلاً صوفی ہوتا ہی وہ ہے جس کا رابطہ شریعتِ مصطفےٰ (ﷺ) کے ساتھ قائم ہوجائے-
اسی طرح جب صلاح الدین ایوبی بیت المقدس کی فتح کے لئے جہاد کرتا ہے تو غوث پاک (رضی اللہ عنہ) کے شہزادے اور آپؒ کے مدرسے کے طلباء اس کے ہمراہ ہوتے ہیں- سیرت نگاروں نے مختلف روایات بیان کی ہیں جن میں بعض نے طلباء کی تعداد چار ہزار اور کسی نے چالیس ہزار لکھی ہے-اگر فقط چار ہزار پر بھی اکتفا کیا جائے تو یہ تعداد بھی ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان صوفیاء نے کس طرح خود کو علم، تفکر، جد و جہد اور ملی مسائل کے ساتھ وابستہ کیا-
اس لئے جب ہم خود کو قادری کہتے ہیں اپنے گھروں اور مساجد میں شیخ عبد القادر الجیلانی (رضی اللہ عنہ) کے ختمِ گیارہویں شریف سے فیض پاتے ہیں تو ہم پر یہ لازم ہوجاتاہے کہ اپنی اولاد اور پوتوں کی تربیت بھی اسی اسلوبِ دینی و ملی و علمی پہ کریں جس کے اوپر سیدی شیخ عبد القادر الجیلانی (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹوں، پوتوں اور پرپوتوں کی تربیت فرمائی تھی-
اصلاحی جماعت و عالمی تنظیم العافین یہی دعوت و پیغام لے کر آئی ہے آئیں اس جماعت میں شامل ہو کر اپنے ظاہر و باطن کو سنوار کر اپنے قلب و اذہان کو منور کریں اورملک و قوم کے لئے اپنی احساسِ ذمہ داری کو سمجھیں-کیونکہ یہ پیغام محبت و اخوت کا پیغام ہے- خاص کر جو معتقدین اور مریدین حضرت سلطان العارفین حضرت سلطان باھو اور حضور غوث الاعظم (رضی اللہ عنہ) سے اپنی روحانی عقیدت و نسبت رکھتے ہیں ان پر یہ لازم ہے کہ وہ فقط زبانی کلامی عقیدت کے بجائے اپنے وجود کو ان کے اس طریقِ عمل اور کردار کے نمونے میں ڈھالیں تا کہ ہمارے وجود سے آقا کریم (ﷺ) کے اخلاق، محبت و شریعت کی خوشبو آئے-
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے-آمین!