الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ

سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دریا دلی

اللہ عز ّوجلّ کے ولی کے اندر جتنے بھی اوصاف و کمالات ہو سکتے ہیں ،سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذاتِ گرامی اُن تمام خوبیوں کی جامع تھی ؛بلکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہر کمال بے نظیر و بے مثال تھا

کیوں کہ آپ ’’غوثیتِ کبریٰ‘‘ کے مرتبے پر فائز تھے۔ علم و معرفت ، وعظ و نصیحت ،اَمانت و صداقت ،جود وسخاوت ،صدقات و خیرات ،مروَّت و اِنسانیت ،اُمورِ خرقِ عادات و کرامات، آداب و اَخلاق، حق گوئی و بے باکی اور رقیق القبی و دریا دلی جیسے اَوصافِ فاضلہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانے کے درِّ یتیم تھے ۔

آپ کی سیرتِ پاک کا ہر گوشہ آفتاب و ماہتاب سے بھی زیادہ روشن و تابناک ہے اور آج بھی اہلِ عالم کو انوار و تجلیات سے سرفراز کر رہا ہے
غُرَبا پَروی اور دریا دِلی سرکارِ غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک نمایاں وصف ہے ۔

آپ کے دریاے جو دو سخاوت سے اُٹھنے والی موجیں آج بھی قادری غلاموں کو سیراب کر رہی ہیںاور ہر معتقد و مُحِبّ تک مسلسل فیض پہنچا رہی ہیں ۔حیاتِ ظاہری میں بھی آپ کی بارگاہِ اقدس سے جود و سخاوت کا ایسا ٹھاٹھیں مارتا دریا رواں دواں تھا ،جس سے روزانہ ہزاروں لوگ سیراب ہوا کرتے تھے ۔

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر کسی کو پریشاں حال اور غم زدہ دیکھ لیتے تو جب تک اُس کی پریشانی دور نہ کر لیتے آپ کو قرار نہ آتا۔

آپ رضی اللہ عنہ ہمیشہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیا کرتے تھے اور مسلسل فاقوں کے باوجود ’’حاصل ہونے والے کھانے یا  پیش کی جانے والی رقم ‘‘کو محتاجوں میں تقسیم فرما دیا کرتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ آپ کی خدمتِ اقدس میں جو ہدیے اور تحفے پیش کیے جاتے ، آپ اُنھیں ’’حاضرین میں ،غریبوں، فقیروں اور مسکینوں میں،یتیموں اور محتاجوں ‘‘ میں بانٹ دیا کرتے تھے ۔یومِیَّہ[روزانہ]ہزاروں دراہم[چاندی کے سکے] و دنانیر[سونے کے سکے] آتے

مگر حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہ،یہ سب کچھ برضا و رغبت راہِ خدا میں خرچ کر دیا کرتے تھے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود فرماتے ہیں :’’میرے ہاتھ میں پیسہ نہیں ٹھہرتا ،اگر صبح کو میرے پاس ہزار دینار آئیں تو شام تک اُن میں سے ایک بھی باقی نہ بچے ،غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دوں اور لوگوں کو کھانا کھلادوں ِ،،۔  [قلائد الجواہر ،ص۸:]۔

آج لوگ باتیں بڑی بڑی کرتے ہیں ؛ مگر جب خرچ کرنے کی باری آتی ہے تو کلیجہ پھٹنے اور پتہ پانی ہونے لگتا ہے؛ بلکہ میدانِ عمل سے اِس طرح غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہے ۔سرکارِ غوثِ پاک نے صرف کہنے اور ترغیب دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا؛بلکہ عمل کرکے دکھلایا۔

یہ آپ کی انسانیت نوازی اوردریا دلی ہی تو تھی کہ آپ روزانہ نان بائی سے روٹیاں پکوا کر غریبوں اور فقیروں میں تقسیم فرماتے،یہ سلسلہ صبح سے شام تک جاری رہتا ،مغرب کے بعد جو کچھ بچتا،اُسے لیکر آپ کا خادم مظفر کھڑا ہو جاتا اور بلند آواز سے اعلان کرتا کہ’’ جس کسی کو روٹی کی ضرورت ہو ،وہ لے جائے اور جو کھانا کھا کر یہاں رات گزارنا چاہے تو اُسے اِس کی بھی اجازت ہے‘‘ ۔ [قلائد الجواہر ،ص۸:]۔


آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخاوت اور دریا دلی کے واقعات سیرت کی کتابوں میں پھیلے پڑے ہیں ، اُن میں ہمارے لیے عبرت کا بہت کچھ سامان ہے ۔ذَیل میں اِس حوالے سے چند واقعات پیش کیے جا رہے ہیں ،پڑھیں اور نصیحت حاصل کرکے عمل کرنے کی کوشش کریں ۔پہلا واقعہ: سرکارِ غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ دریا کے کنارے ایک شخص کو انتہائی غم زَدَہ دیکھا ،قریب بلا کر حال دریافت کیا ۔

اُس نے کہا: حضور ! ایک ضروری کام سےمجھےدریا کے اُس پار جانا ہے ؛ مگر میرے پاس کرایہ کی رقم نہیں ہے ، مَیں نے ملاح سے بڑی منت و سماجت کی کہ مجھے اُس پار پہنچا دے ،جب رقم آئے گی قیمت ادا کردوں گا ؛ مگر اُس نے میری ایک نہ سنی ۔حضور! اگر میرے پاس رقم ہوتی تو آج ایسی ذلت و محرومی کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔اُس کی محرومی دیکھ کر سرکارِ غوثِ اعظم تڑپ اُٹھے۔

حسنِ اتفاق کہ عین اُسی وقت ایک مرید نے حاضرِ خدمت ہو کر تیس دیناروں کی ایک تھیلی بارگاہِ اقدس میں پیش کی ۔آپ نے قبول فرما کر، اُسی وقت وہ پوری رقم اُس غریب کے حوالے کر دی اور ارشاد فرمایا: جا کر یہ رقم اُس ملاح کو دے دینا اور اُس سے کہہ دینا کہ آئندہ کسی بھی غریب کو دریا کے اُس پار لے جانے سے انکار نہ کرے ۔

اِس کے بعد شیخ عبد القادر جیلانی علیہ الرحمہ نے اپنی مبارک قمیص اتاری اور اُس فقیر کوتحفتاً دے کر ارشادفرمایا: اب تم یہ قمیص بیس دینار میں مجھ سے بیچ دو ۔چناں چہ آپ نے اُسے بیس دینار دیے اور وہ قمیص واپس خرید لی ۔[بہجۃ الاسرار ، مترجم،ص۲۷۷:۔قلائد الجواہر ،ص۲۶:]۔

 آج سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محبت کا دم بھرنے والے ہمارے اکثر قائدین و رہ نما ، پیری مریدی کو حصولِ زَر کا بہترین ذریعہ سمجھنے والے متصوفین اور بہت سے اہلِ ثروت حضرات بھی روزانہ نہ جانے کتنے محتاجوں اور غم کے ماروں کو دیکھتے ہیں ؛ مگر یوں نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جیسے اُن پر کوئی ذمے داری عائد نہیں ہوتی ؛ بلکہ مال داروں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے کہ مال و زَر کی ہوس نے اُنھیں ذہنی طور پر مفلوج کر دیا ہے جس کے سبب فقرا و مساکین کی محتاجی دور کرنے کا وہم و خیال بھی اُن کے دماغ سے نہیں گزرتا۔

ا ور اگر اِن میںکسی صاحب کو کسی محتاج پر کچھ خرچ کرنے کی توفیق مل بھی گئی تو آں جناب اُس بیچارے پر بارِ احسان لاد کر حاصل ہونے والےاجر و ثواب کو یکسر ضائع کر دیتے ہیں ۔ایسے لوگ پکے دنیا دار ؛ بلکہ دنیا کے کتے ہیں۔

ہمارے امام سرکارِ اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ نے ایسے ہی لوگوں سے پناہ مانگی ہیں ۔ فرماتے ہیں :بہرِ شبلی شیرِ حق دنیا کے کتوں سے بچاایک کا رکھ عبدِ واحد بے رِیا کے واسطےسرکارِ غوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شانِ سخاوت دیکھیے !  اگر ایک طرف آپ نے ملاح کو تیس دینار دے کر ، دریا کے اُس پار جانے کی احتیاج رکھنے والے ہر فقیر و مفلس کے کرایہ کا انتظام کیا تو دوسری جانب محتاج سے بیس دیناروں میں اپنی ہی قمیص خرید کر ،اُس کی غیرت و حمیت کا خیال بھی فرمایا ۔غربا پروری کا یہ انوکھا انداز کوئی ہمارے غوثِ پاک سے سیکھے ۔ سبحان اللہ ۔

آتا ہے فقیروں پہ انھیں پیار کچھ ایسا

خود بھیک دیں اور خود کہیں منگتا کا بھلا ہو

دوسرا واقعہ: شہزادۂ غوثِ اعظم حضرت سیدنا شیخ عبد الرزاق رضی اللہ عنہمابیان فرماتے ہیں :لوگوں میں مقبولیت و شہرت کے بعد میرے والدِ ماجد سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے صرف ایک بار حج کیا ، اُس سفرِ حج میں آتے جاتے والدِ بزرگوار کی سواری کی مہار میرے ہاتھوں میں تھی ۔واپسی پر جب ہم لوگ بغداد سے قبل حلہ نامی بستی میں پہنچے .

تو حضور غوثِ پاک نے فرمایا : اِس علاقے کے سب سے غریب گھرانے کو تلاش کرو !ہم نے تلاش کیا تو بالوں کے خیموں پر مشتمل ایک ویران گھر مِل گیا ، جس میں ایک انتہائی ضعیف شخص اپنی بوڑھی بیوی اور ایک لڑکی کے ساتھ رہتا تھا۔حضور غوثِ پاک نے اُس بوڑھے شخص سے فرمایا:آج ہم آپ کے مہمان بننا چاہتے ہیں ،کیا آپ کی اجازت ہے ؟اُس نے انتہائی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اجازت دی ۔

سرکارِ غوثِ اعظم،اُس غریب کی قسمت کا ستارہ چمکانے کے لیے، اپنے رُفقاے سفر کے ساتھ اُس ویرانے میں اتر پڑے۔ جب شہرِ حلہ کے مشائخِ کرام اور اہلِ ثروت و اقتدار کو معلوم ہوا کہ شیخ عبد القادر جیلانی نے انتہائی غریب اور بے حیثیت شخص کے جھوپڑے میں قیام کرنا پسند کیا ہے،تو وہ سب بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور اصرار کرتے ہوئے بولے:  حضور ! اِس جھوپڑی کے بجاے ہمارے یہاں قیام کریے ! یہ خیمہ ہر گز آپ کی شایانِ شان نہیں ہے۔

سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کرتے ہوئے کہا: آج کی شب ہم یہیں گزاریں گے ۔جب وہ لوگ مایوس ہو گئے تو دراہم و دنانیر اور مختلف قسم کے جانور وں کا نذرانہ پیش کرنے لگے ، دیگر اہلِ حلہ نے بھی تحائف و ہدایا پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں مختلف قسم کے اموال و اسباب کا انبار لگ گیا ۔سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اپنے حصے کے جملہ تحائف و ہدایا اِس غریب گھرانے کے لیے وقف کرتا ہوں ۔

یہ اعلان سن  کررفیقانِ سفر نے بھی اپنے اپنےحصے کے نذرانے اُس غریب کی جھولی میں ڈال دیے اور یہ نورانی قافلہ صبح کے وقت جانبِ بغداد روانہ ہو گیا ۔راوی بیان کرتے ہیں کہ کئی سالوں کے بعد میرا گزر اُس بستی کے قریب سے ہوا ،سوچا اُس بوڑھے شخص کا حال دریافت کر لوں

تحقیق و جستجو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ضعیف و محتاج شخص اُس بستی کا سب سے مال دار انسان بن چکا ہے ۔میں نے اُس سے پوچھا  آپ کے پاس اتنی ساری دولت کہاں سے آئی ؟ کہنے لگا:یہ سب کچھ اُسی ایک رات کی برکت کا نتیجہ ہے،جس میں سرکارِ غوثِ اعظم ہمارے یہاں قیام پزیر ہوئے تھے۔[سیرتِ غوثِ اعظم ، ص۱۱۵:،۱۱۶]۔

یہ تھی سرکارِ غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنے غریب مریدوں پر شفقت اور یہ تھی آپ کی دریا دلی ۔آپ نے کیسے پیارے اور دل کش انداز میں اُس غریب کی جھولی بھری اور اپنے مال دار مریدوں کے نذرانوں سے اُس کا تہی دامن بھر دیا ،یہاں تک وہ اپنے علاقے کا سب سے مال دار انسان بن گیا ۔جب کہ بعض موجودہ پیروں کے نزدیک غریب مریدوں کی کوئی حیثیت نہیں ۔ پیر صاحب پر اُن کے مال دار مرید وں کا ایسا تسلط قائم رہتا ہے کہ بیچارہ غریب مرید اُن کے قریب بھی بھٹک نہیں پاتا ۔الا ماشاء اللہ ۔

یہ واقعہ ہمیں یہ درس دے رہا ہےکہ ہم غریبوں کی غربت کا مزاق نہ اڑائیں ؛ بلکہ اُن کی حالتِ زار پر خاص توجہ دیں اور اُن کے گھروں سے غربت و افلاس کا جنازہ نکالنے کی حتی المقدور کوشش کریں اور محنت و مشقت اور تحائف و ہدایا کے ذریعے جو بھی حلال مال ہمیں ملے ،سب نہیں تو کم از کم اُس کا کچھ حصہ اللہ عز وجل کے فقیر و مفلس بندوں پر بھی خرچ کریں ۔

تحریر: سید اکرام الحق قادری مصباحی سرکار غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دریا دلی