الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلٰی حَبِیْبِہٖ سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ وَّاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارَکَ وَسَلَّمْ

حضرت غوث اعظم جیلانی

بیشک خالقِ کائنات اللہ رب العالمین نے اِنس وجن کی رشد و ہدایت کے لئے مختلف وقتوں اور خطوں میں کم وپیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیأ و مرسلین کو مبعوث فرمایا ہر نبی ورسول اللہ تعالی کی علیحدہ علیحدہ صفتوں کے مظہرین لے کر آئے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے اپنی کُل صفات ہی نہیں بلکہ ذات کا بھی مظہر بناکر اپنے محبوب نبی آخرالزماں پیارے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعُوث فرمایا تو مظہر ذات کے بعد کسی نبی کی ضرورت نہ رہی باب نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا تو رُشد و ہدایت اور احیأدین و ملت کے لئے مظہر ذات خدا محبوب رب العلیٰ نے غیبی خبر دی کہ” ہر صدی کے اختتام پر ایک مجدد پیداہ وگا”(مشکوٰةشریف) نیز فرمایاکہ ” اللہ کے نیک بندے دین کی محافظت کرتے رہیں گے” (ابودأود) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے کہ” عملائے دین بارش نبوت کا تالاب ہیں” (مشکوٰة شریف) نیز فرمایا کہ ” چالیس ابدال (اولیأ) کی برکت سے بارش اور دشمنوں پر فتح حاصل ہو گی اور اِنہیں کے طفیل اہلِ شام سے عذاب دور رہے گا (مشکوةشریف) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ ” علمأ کی زندگی کے لئے مچھلیاں دُعا کرتی ہیں” (مشکوٰةشریف) نیز فرمایا کہ ” میری اُمت میں ہمیشہ تین سو اُولیأ حضرت آدم علیہ السالم کے نقش ِ قدم پر رہیں گے اور چالیس حضرت موسیٰ علیہ السلام و سات حضرت اِبراہیم علیہ السلام کے قدام پر ہونگے اور پانچ وہ رہیں گے کہ جن کا قلب حضرت جبرئیل علیہ السلام کی طرح ہو گا اور تین حضرت میکائیل کے قلب پر اور ایک حضرت اِسرافیل کے قلب پر رہے گا جب اِس ایک کا انتقال ہوگا تو اِن تین میں سے کوئی قائم ہوگا اور اِن تین کی کمی پانچ میں سے اور پانچ کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی سات میں سے اور سات کی کمی چالیس میں سے اور چالیس کی کمی تین سو سے اور تین سو کی کمی عالم مسلمانوں سے پوری کر دی جاتی ہے’ (مرقاةملاعلی قاری)۔

علمأ حق فرماتے ہیں کہ” اللہ تعالیٰ رحمتیں دینے والا، سیدالانبیأ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمانے والے اور اُولیأ و علمأ اِس کا ذریعہ ہیں ”اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے ملت مصففویہ کے سامنے علمأ و مشائخ نے ایک خوبصورت اور زریں اُصول یہ پیش کر دیا ہے بارگاہِ ربوبیت تک رسائی آقائے دو جہاں سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اور بارگاہِ سرور ِ کائنات تک رسائی اُولیأ اللہ کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے اِن اُولیأ اللہ کی صف اول میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت اطہار رضوان اللہ علیھم اجمعین شامل ہیں اِن کے بعد تابعین، ائمہ مجتھدین، ائمہ شریعت وطریقت کے علاوہ صوفیأ اتقیأ اور دیگر اُولیأ بھی شامل ہیں اُولیأ کرام تو بہت ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہیں گے لیکن اِس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ علم و فضل کشف و کرامات، مجاہدات و تصرفات اور حسب ونسب کی بعض خصوصیات کی وجہ سے حضرت غوث اعظم کو اُولیأ کی جماعت میں جو خصوصی امتیاز حاصل ہے وہ کسی اور نہیں یہ واضح رہے کہ حضرت غوث اعظم کو جب ہم مقامِ ولیوں کا تاجدار کہتے یں تو یہاں ولیوں کے عموم میں صحابہ کی جماعت کو شامل نہیں کرنا چاہئے خالقِ کائنات اللہ رب العزت جن خوش نصیب بندوں کو مقام ولایت عطا فرماتا ہے اُن کی ولایت کو کبھی زائل نہیں فرماتا۔ آپ غوث اعظم، غوث الثقلین ، غیوث الکونین، امام الطرفین، امام النقےٰ، رئیس الاتقیأ، تاج الاصفیأ، قطبِ ربانی، شہباز لامکانی، محی الملت والدین، فخرشریعت وطریقت، ناصرسُنت، عماد حقیقت، قامع بدعت، سیدوالزاہدین، رھبرِ عابدین، کاشف الحائق، مقتدأ الخلائق، قطب الاقطاب، غوث الاغوث وغیرہم القابات تاجدارِ غوث صمدانی ، سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی ولادتِ پاک وطن مبارک گیلا جیسے گیلان بھی کہتے ہیں عرب کے لوگ اِسی کو جیل اور جیلان بھی کہتے ہیں یہ طبرستان کے پاس ایک علاقہ ہے جو ملک عجم میں واقع ہے اِسی علاقے میں نیف نام کے ایک قصبہ میں معتبر روایتوں کے ذریعہ پتہ چلتاہے کہ (آپ حضرت غوث اعظم) یکم رمضان المبارک جمعہ کیدن سنہ 470 ہ مطابق 1075 سنہ ٔ میں ہوئی یہ علاقہ بغداد مُقدس سے سات میل کی دوری پرہے بغداد مُقدس اور مَدائن کے قریب بھی جیل یا گیل نام کے دوقصبے پائے جاتے ہیں لیکن اِن دونوں قصبوں کو حضرت غوث اعظم کا مولاباور کرنادرست نہیں کیونکہ یہ ملک عراق سے متعلق ہیںاور حضرت غوث اعظم کا عجمی ہونا متحقق ہے امام حافظ ابنِ کثیر و مشقی المتوفی 774 سنہہ میں اپنی تصنیف البدایہ و الہنایہ میں حضرت غوث اعظم کا سنہ ولادت 470 سنہ ھ لکھتے ہیں اور امام یافعیٰ المتوفی 768 سنہ ھ اپنی تصنیف مراة الجنان و عبرة الیقان میں لکھتے ہیں کہ حضرت غوث اعظم سے جب کسی نے آپ کے سال ولادت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا مجھ کو صحیح طور پر یادنہیں البتہ! اتنا ضرور جانتاہوں کہ جس سال میں بغداد آیاتھا اِسی سال شیخ ابوامحمد رزق اللہ ابنِ عبدالوباب تمیمی کا وصال ہوا اور یہ 488 سنہ ھ تھا اِس وقت میری عمر 18 سال تھی اِس حساب سے آپ کاسنہ ھ ولادت 470 سنہ ھ ہوا اِس طرح جملہ سوانح نگاروں کے بیانات زیادہ ترنفحات ہی سے ماخوذ ہیں


اِس وجہ سے عام لوگوں کی رائے یہی ہوگئی کہ غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی حضرت غوث اعظم کا سنہ ولادت 470 سنہ ھ ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ اُم الخیر بیان فرماتی ہیں کہ ولادت کے ساتھ احکامِ شریعت کا اِس قدر احترام تھا کہ حضرت غوث اعظم رمضان بھر دن میں قطعی دودھ نہیں پیتے تھے ایک مرتبہ اَبر کے باعث 29 شعبان کو چاند کی رویت نہ ہوسکی لوگ تردوّ میں تھے لیکن اِس مادر ذادولی حضرت غوث اعظم نے صبح کو دودھ نہیں پیابالآخر تحقیق کے بعد معلوم ہواکہ آج یکم رمضان المبارک ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ کے پورے عہدِ رضاعت میں آپ کا یہ حال رہا کہ سال کے تمام مہینوں میں آپ دودہ پیتے رہتے تھے لیکن جوں ہی رمضان شریف کا مبارک مہینہ آپ کایہ معمول رہتا تھا کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک قطعاََ دودہ نہیں پیتے تھے۔ خواہ کتنی ہی دودہ پلانیکی کوشش کی جاتی یعنیٰ رمضان شریف کے پورے مہینہ آپ دن میں روزہ سے رہتے تھے اور جب مغرب کے وقت اذان ہوتی اور لوگ افطار کرتے توآپ بھی دودہ پینے لگتے تھے ابتدا ہی سے خالقِ کائنات اللہ رب العزت کی نوازشات سرکار غوث اعظم کی جانب متوجہ تھیں پھر کیوں کوئی آپ کے مرتبۂ فلک وقار کو چھوسکتا یا اِس کا اندازہ کر سکے چنانچہ سرکارِ غوث اعظم اپنے لڑکپن سے متعلق خود ارشاد فرماتے ہیں کہ عمر کے ابتدائی دور میں جب کبھی میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنا چاہتا تو غیب سے آواز آتی تھی کہ لہو و لعب سے باز رہو جِسے سُن کر میں رُک جایا کرتا تھا اور اپنے گردوپیش جو نظر ڈالتا تو مجھے کوئی آواز دینے والا نہ دِکھائی دیتا تھا جس سے مجھے دہشت سی معلوم ہوتیاور میں جلدی سے بھاگتا ہوا گھر آتا اور والدہ محترمہ کی آغوش محبت میں چھپ جاتا تھا۔



اَب وہی آواز میں اپنی تنہائیوں میں سُنا کرتا ہوں اگر مجھ کو کبھی نیند آتی ہے تو وہ آواز فوراََ میرے کانوں میں آ کرکے مجھے متنبہ کردیتی ہے کہ تم کو اِس لئے نہیں پیداکیاہے کہ تم سُویا کرو آپ حضرت غوث اعظم فرماتے ہیں کہ بچپن کے زمانے میں غیر آبادی میں کھیل رہاتھابتقاضائے طفلی ایک گائے کی دم پکڑ کر کھینچ لی فوراََاِس نے کلام کیا عبدالقادر تم اِس غرض سے دنیا میں نہیں بھیجے گئے ہومفا میں نے اِسے چھوڑ دیا اور دل کے اُوپر ایک ہیبت سی طاری ہوگئی مشہور روایت ہے کہ جب سیدناسرکار غوث اعظم کی عمر شریف چارسال کی ہوئی تو رسم ورواج ِاسلامی کے مطابق والد محترم سیدنا شیخ ابوصالح جن کا لقب” جنگی دوست ” ہے اِس وجہ سے ”قلائدالجواہر”میں بتائی گئی ہے کہ آپ جنگ کو دوست رکھتے تھے ریاض الحیات میں اِس لقب کی تشریح یہ بتائی گئی ہے کہ آپ اپنے نفس سے ہمیشہ جہاد فرماتے تھے اور نفس کشی کو تزکیۂ نفس کا مدار سمجھتے تھے۔ اُنہوںنے آپ کورسم بسم اللہ خوانی ادائیگی اور مکتب یں داخل کرنے کی غرض سے لے گئے اور اُستاد کے سامنے آپ دوزانوں ہوکر بیٹھ گئے اُستاد نے کہا! پڑھو بیٹے بسم اللہ الرحمن الرحیم ہ آپ نے بسم اللہ شریف پڑھنے کے ساتھ ساتھ الم سے لے کر مکمل اٹھارہ 18بارے زبانی پڑہ ڈالے اُستاد نے حیرت کے ساتھ دریافت کیا کہ یہ تم نے کب پڑھا….؟اور کیسے پڑھا….؟تو آپ نے فرمایا کہ والدہ ماجدہ اٹھارہ سِپاروں کی حافظہ ہیں جن کا وہ اکثر ورد کیا کرتی تھیں جب میں شکمِ مادر میں تھا تو یہ اٹھارہ سپارے سُنتے سُنتے مجھے بھی یاد ہوگئے تھے (دیکھئے یہ شان ہوتی ہے اللہ کے ولیوں کی حضور غوث اعظم آج سے کئی صدیوں قبل ہی اِس حقیقت کومن وعن سچ ثابت کرچکے ہیں کہ دورانِ حمل ماں جوکچھ بھی سوچ رہی ہوتی ہے اور پڑھ رہی ہوتی ہے تو اُس کا اثر دونوں ہی صورتوں میں شکمِ مادر میں رہنے (پلنے) والے بچے پر ضرور پڑ رہا ہوتا ہے اور آج چاند کو چھولینے اور اِس پر چہل قدمی کرنے کی دعویدار 21 ویں صدی کی جدید سائنسی دنیا کے یورپ اور امریکا کے سائنسدان اپنی تحقیقوں سے یہ بتانتے پھر رہے ہیں کہ سائنس نے یہ ایک نئی تحقیق کرلی ہے کہ دورانِ حمل ماں جو کچھ بھی منفی یامثبت سوچ رکھتی ہے اِس کا اَثر آئندہ آنے والے بچے کی زندگی پر پڑتا ہے یہ بات سائنس نے آج دریافت کی ہے۔ جبکہ حضور غوث اعظم نے صدیوں قبل اِسکا عملی ثبوت دنیا کے سامنے خود پیش کر دیا تھا اِس سے ہم اُمت مسلمہ کو فخر ہونا چاہئے کہ موجودہ دنیاکی کوئی ترقی قرآن و سنت اور تعلیمات اسلامی کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہوسکتی)۔

آپ نے اپنے وطن جیلان ہی میں باضابطہ طورپر قرآن عظیم ختم کیا اور چند دوسری دینی کتابیں پڑہ ڈالیں تھیں حضرت غوث اعظم نے حضرت شیخ حماد بن مسلم ہی سے قرآن مجید فرقانِ حمید حفظ کیا اور برسوں خدمتِ حمادیہ میں رہ کر آپ فیوض وبرکات حاصل فرماتے رہے سرکارغوث اعطم نے 528 سنہ ھ میںدرس گاہ کی تعمیر جدید سے فراغت پائی اور مختلف اطراف وجوانب کے لوگ آپ سے شرف تلمذ حاصل کرکے علوم دینیہ سے مالامال ہونے لگے آپ کی بزرگی ولادیت اِسقدر مشہور اور مسلم الثبوت ہے کہ آپ کے ” غوث اعظم ہونے پر تمام اُمت کا اتفاق ہے حضرت کے سوانح نگار فرماتے ہیں کہ”کسی ولی کی کرامتیں اِسقدار تواتر اور تفاصیل کے ساتھ ہم تک نہیں پہنچی ہیں کہ جس قدر حضرت غوث الثقلین کی کرامتیں ثفات سے منقول ہیں(نزپتہ الخاطر الفاطر) خلق خدامیں آپ کی مقبولیت ایسی رہی ہے کہ اکبر و اصاغر سب ہی عالم استعجاب میں مبتلا ہوجاتے ہیں مشرق یا مغرب ہرایک غوث اعظم کا مداح اور آپ کے فیض کا حاجت مند نظر آتا ہے مقبولیت وہرد لعزیزی کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان شیریں بیانی اور کلام و وعظ میں اَثر آفرینی بھی حیران کن تھی۔ اِسے آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی حیات مقدس کاایک ایک لمحہ کرامت ہے اور آپ کے علمی کمال کا تویہ حال تھاکہ جب بغداد میں آپ کی مجالس ووعظ میں ستر، ستر(70,70) ہزار سامعین کا مجمع ہونے لگا تو بعض عالموں کو حسد ہونے لگا کہ ایک عجمی گیلان کا رہنے والا اِسقدر مقبولیت حاصل کر گیا ہے۔

چنانچہ حافظ ابوالعباس احمدبن احمد بغدادی اور علامہ حافظ عبدالرحمن بن الجوزی جو دونوں اپنے وقت میںعلم کے سمندر اورحدیثوں کے پہاڑ شمار کئے جاتے تھے آپ کی مجلس ووعظ میں بغرض امتحان حاضر ہوئے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھ گئے جب حضور غوث اعظم نے وعظ شروع فرمایا تو ایک آیت کی تفسیر مختلف طریقوں سے بیان فرمانے لگے پہلی تفسیر بیان فرمائی تو اِن دونوں عالموں نے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے تصدیق کرتے ہوئے اپنی اپنی گردنیں ہلا دیں اِسی طرح گیارہ تفسیروں تک تو دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ دیکھ کراپنی اپنی گردنیں ہلاتے اور ایک دوسرے کی تصدیق کرتے رہے مگر جب حضور غوث اعظم نے بارہویں تفسیر بیان فرمائی تو اِس تفسیر سے دونوں عالم ہی لاعلم تھے اِس لئے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دونوں آپ کا منہ مبارک تکنے لگے اِسی طرح چالیس تفسیریں اِس آیت مبارکہ کی آپ بیان فرماتے چلے گئے اور یہ دونوں عالم استعجاب میں تصویر حیرت بنے سُنتے اور سردھنتے رہے پھر آخر میں آپ نے فرمایا کہ آپ ہم قال سے حال کی طرف پلٹتے ہیں پھر بلند آواز سے کلمۂ طیبہ کا نعرہ بلند فرمایا تو ساری مجلس میں ایک جوش و کیفیت اور اضطراب پیدا ہو گیا اور علامہ ابن الجوشی نے جوش حال میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے (بہجتہ الاسرار) بغیر کسی مادی سویلہ (یعنی ساونڈ سسٹم کے بغیر) کے ستر ہزار کے مجمع تک اپنی آواز پہنچانا اور سب کا یکساں انداز میں سماعت کرنا آپ کی ایسی کرامت ہے کو روزانہ ظاہر ہوتی رہتی تھی۔

سیدنا عوث اعظم کے سوانح وحالات رقم کرنے والے تمام مصنفین وتذکرہ نگاروں کا اِس پر اتفاق ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ نے ایک مرتبہ بہت بڑی مجلس میں (کہ جس میں اپنے دور کے اقطاب وابدال اور بہت بڑی تعداد میں اُولیأ وصلحأ بھی موجود تھے جبکہ عام لوگوں کی بھی ایک اچھی خاصی ہزاروں میں تعدادموجودتھی)دورانِ وعظ اپنی غوثیت کبریٰ کی شان کا اِس طرح اظہار فرمایا کہ (قَدَمیِ ھٰذِہِ علی رقبةکُل ولی اللہ) ترجمہ:-میرایہ قدم تمام ولیوں کی گردنوں پر ہے”تو مجلس میں موجود تمام اُولیأ نے اپنی گردنوں کو جھکا دیا اور دنیا کے دوسرے علاقوں کے اُولیأ نے کشف کے ذریعے آپ کے اعلان کو سُنا اور اپنے اپنے مقام پر اپنی گردنیں خم کر دیں حضرت خواجہ شیخ معین الدین اجمیری نے گردن خم کرتے ہوئے کہاکہ” آقا آپ کا قدم میری گرن پر بھی اور میرے سرپربھی”(اخبار الاخیار، شمائم امدادیہ، سفینہ اولیأ، قلائدالجواہرِ نزہتہ الخاطر افاطر، فتاویٰ افریقہ کرامات غوثیہ اعلی حضرت)۔

بیشک !حضور غوث اعظم جیلانی پیر کامل اور مادر ذادولی تھے امام حافظ ابن کثیرنے البدایہ والہنایہ میاور حضرت امام یافعی نے مرأة الجنان میں آپ کے وصال کے سلسلے میں صرف سال وصال کا تذکرہ کیاہے جو 561 سنہ ھ ہے دن یا تاریخ یا مہینہ کا کوئی ذکر نہیں ہے حضرت مولاناعبدالرحمن جامی نے بھی نفحات الانس میں آپ کے وصال کے بیان میں 561 سنہ ھ کا ہی ذکر کیا ہے ہاں البتہ! آگے چل کر کرامات کے بیان میں سرکار غوث اعظم کے شاہزادے حضرت شیخ عبدالوہاب کا قول نقل فرمایا ہیکہ جس سے واضح ہوتاہے کہ ماہِ ریبع الآخری میں آپ حضور غوث اعظم کا وصال شریف ہواہے بعض 17 ربیع الآخری سنہ 561 ھ اور بعض کتابوں میں 11اور 12 ربیع الآخر بھی لکھا ہو ملتا ہے۔
آپ حضور غوث اعظم کی حیات مبارکہ کا اکثر و بیشتر حصہ بغداد مقدس میں گزرا اور وہیں پر آپ کا وصال ہوا اور وہیں پر ہی آپ کا مزار مبارک ہے جس کے گرد عام لوگوں کے علاوہ بڑے بڑے مشائخ اور اقطاب آج بھی کمالِ عقیدت کے ساتھ طوافِ زیارت کیا کرتے ہیں اور فیوض و برکات سمٹتے ہیں۔(بحوالہ:-مجلہ نقیب ملت اگست ٢٠٠٢ کراچی….کتاب سیرتِ غوث اعظم قدس سرہ العزیز لاہور)۔

(بحوالہ:-مجلہ نقیب ملت اگست ٢٠٠٢ کراچی….کتاب سیرتِ غوث اعظم قدس سرہ العزیز لاہور)۔